مندرجات کا رخ کریں

مراقبہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مراقبہ تصوف کی ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم فیض کا انتظار کرنا ہے

لغوی معنی

[ترمیم]

دل کو حق تعالیٰ کے ساتھ حاضر رکھنا اور قلب کو حضوری حق میں ایسا رکھنا کہ خطرات دوئی اور خودی نہ آنے پائیں اور اگر آئیں تو دفع کرے، گردن جھکا کر غور و فکر کرنا، اللہ کے ماسوا کو چھوڑ کر محض اللہ کی طرف دل لگانا، استغراق، گیان، دھیان، تصور، سوچ بچار۔ (ماخوذ: مصباح التعرف) "قلب سلیم کی حفاظت مراقبہ اور توجہ سے کی جاتی ہے۔[1]

سائنسی معنی

[ترمیم]

مراقبہ مختلف خود ضابطہ طریقوں، یعنی مشقوں پر مشتمل ایک طریقہ کار ہے جس کا مقصد ذہنی تندرستی کو بڑھانا اور توجہ، آگاہی، سکون، وضاحت اور ارتکاز جیسی مخصوص صلاحیتوں کو فروغ دینا ہے۔ [1]

مراقبہ نیوروپلاسٹسٹی بڑھانے کا ایک بہترین طریقہ کار ہے ۔

انگلینڈ کی یونیورسٹی آف سرے میں کلینیکل سائیکالوجی کے پروفیسر تھورسٹین بارن ہوفر نے بتایا کہ ہم اپنے دماغ کی صلاحیتوں کو کئی طریقوں سے بڑھا سکتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ یہ بھی کچھ ایسا ہی عمل ہے جو تناؤ کو کم کرتا ہے اور صرف چند ہفتوں میں ’نیوروپلاسٹیسٹی‘ کو فروغ دیتاہے۔

نیوروپلاسٹیسٹی کو بڑھا کر، ڈیمنشیا جیسی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے اور یہاں تک کہ نفسیاتی صدمے کی وجہ سے دماغ کو پہنچنے والے نقصان کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

ماہر نفسیات بتاتے ہیں کہ ‘ مراقبہ سے اعصابی رابطے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ اگر کوئی شخص دن میں صرف 15 منٹ تک پریکٹس کرے تو اس کا چلنا، بولنا، ہنسنا، مسکرانا، سب کچھ بدل جائے گا۔‘ [2]

اصطلاحی معنی

[ترمیم]

سلوک کی اصطلاح میں حضور دوست میں گردن ڈال دینا ہے(محبوب ،معشوق ،مطلوب کے سامنے جھک جانا اس میں منہمک ہو جانادوست کو آنکھوں میں رکھنا [2]۔

مراقبہ

[ترمیم]

جس کی انگریزی عام طور پر meditation کی جاتی ہے اور اگر اسی متبادل کو ہم پلہ برائے لفظِ مروجہ عربی، فارسی اور اردو تسلیم کر لیا جائے تو پھر مراقبہ کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ ؛ مراقبہ ایک ایسی عقلی تادیب (discipline) کا نام ہے جس میں کوئی شخصیت ماحول کے روابطِ حیات سے ماوراء ہو کر افکارِ عمیق کی حالت میں چلی جائے اور اندیشہ ہائے دوئی سے الگ ہوکر سکون و فہم (awareness) کی جستجو کرے۔ یعنی یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فکرِ آلودہ سے دور ہوکر فکرِ خالص کا حصول مراقبہ کہلاتا ہے۔ meditation کو تاریخ اسلام کے پس منظر میں دیکھا جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غارِ حِرا میں عبادت اور غور و فکر مراقبہ meditation کے زمرے میں کیا جا سکتا ہے۔ عبادت میں خشوع و خضوع ہی اصل میں درست طور پر وہ طریقۂ کار ہے جس کی اسلام میں وضاحت ملتی ہے۔ مراقبہ سے عبادت میں توجہ ،خشوع و خضوع اور یکسوئی پیدا کی جاتی ہے سلسلہ چشتیہ اور سلسلہ نقشبندیہ سیفیہ میں 36 مراقبات سبق کے طور موجود ہیں[2]۔ == اوراد نقشبندیہاحمد الدین توگیروی صفحہ 17 طبع ادارہ سیفیہ باغبانپورہ لاہور ==

  1. "مراقبہ - اردو_لغت"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2014 
  2. ^ ا ب یازدہ رسائل خواجہ بندہ نواز گیسو دراز صفحہ 215 سیرت فاؤنڈیشن لاہور

اصل الکلمہ

[ترمیم]

مراقبہ، عربی لفظ رقب کی اصل الکلمہ سے مشتق لفظ ہے جس کے معنی بنیادی طور پر دیکھنے، توجہ دینے وغیرہ کے آتے ہیں اور اسی سے اردو میں راقب اور رقیب کے الفاظ بھی ماخوذ کیے جاتے ہیں۔[1] مراقبہ کا لفظ اس اصل الکلمہ کے اعتبار سے اپنے ذہن کی گہرائیوں میں دیکھنے یا اپنی عقل کو دیکھنے کے قابل بنانے کے تصور میں لیا جا سکتاہے۔

وضاحت

[ترمیم]

مراقبہ انسان کا اپنی خودی (self) یا ذات میں گہرائی کی طرف ایک سفر ہے جس سے انسان اپنے اندر (باطن) میں اپنا اصلی گھر (awareness of self) یا فکر و سوچ کا ایک خاص مقام تلاش کر سکتا ہے۔ مراقبہ چونکہ ذہن کی ایک نفسیاتی کیفیت ہے اور اس کا انسانی شعور (consciousness) سے گہرا اور براہ راست تعلق ہوتا ہے، اس لیے کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق اور تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ ہونے کی مراقبہ میں کوئی قید نہیں ہے گویا مراقبہ سب کے لیے ایک جیسا فکری عمل ہے۔ مراقبہ، مراقب (شخصیت) کی توجہ اس کے باطن (ماحول کے اثرات سے دور یکسوئی) کی طرف لے جانے کا موجب بنتا ہے اور اس طرح یکسوئی سے کی جانے والی فکر کے دوران انسان کی توجہ چونکہ مختلف خیالات میں بکھرے اور بھٹکے ہوئے شعور (conscious) سے الگ ہوکر کسی ایک بات پر یکسوئی سے مرتکز ہو جاتی ہے لہٰذا ذہنی و نفسیاتی طور پر انسان ایک قسم کی حالتِ سکون پہ مقیم ہو جاتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مراقبے سے انسان کی توجہ؛ مختلف خیالات میں منتشر شعور (مجازی مراکز) کی بجائے کسی ایک فکر پر مرتکز شعور (حقیقی مرکز) سے مربوط ہو جاتی ہے۔ اگر تمام دنیاوی خیالات سے الگ ہوکر محض عبادت پر توجہ کی جائے تو عبادت میں خشوع و خضوع حاصل ہوتا ہے جس سے انسان مادی تصورات سے جدا ہوکر دینی علم میں اضافہ کر سکتا ہے اور کم از کم اسلام میں اسے خاص طور پر مراقبہ کے نام سے تعبیر نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ یہ دنیاوی خیالات سے دور رہ کر خود کو اللہ کے سپرد (عبادت میں مشغول) کر دینے کی کیفیت ہے، عبادت میں طاری اس ذہنی کیفیت کو لغتی معنوں مراقبہ ہی کہیں گے لیکن اسلام میں مراقبہ (اپنے رائج تصور میں) نا تو عبادت کا حصہ ہے اور نا ہی عبادت کے لیے لازم ہے۔ اس کے برعکس ایسے مذاہب بھی ہیں کہ جن میں مراقبہ کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے، جیسے بدھ مت اور ہندو مت وغیرہ۔۔ حقیقی مراقبہ کا راز صرف ذہنی تصور (imagination) کے ساتھ منسلک ہے اور اس تصور سے مراد مراقبے کی ابتدائی اور انتہائی سطحوں پر شعور میں بیدار افکار سے ہوتی ہے۔ مراقبہ نفسیاتی علم کی وہ قسم ہے جو انسان کی شخصیت، روح اور ذات کو آپس میں یکجا کر دے اور ان سب کو ایک نقطہ سے مربوط کر کے کثرت و دوئی سے آزادی کا احساس پیدا کر دے۔ مراقبہ، ظاہری زندگی کے مستقل نہ ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے اور زندگی کی حقیقت کو قریب سے سمجھنے اور اس کی ظاہری نا پائیداری کے احساس کو اجاگر کرتا ہے۔ مراقبہ کو ایک ذہنی ورزش کا نام دے سکتے ہیں جس کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں، جتنا زیادہ اس عمل (مشق / ریاض) کو کیا جائے اتنی زیادہ اس میں مہارت حاصل ہو گی۔

مراقبہ کا عمل اور تاریخ انسانی

[ترمیم]

اس زمین پر ظہور انسانی سے ہر دور کے لوگو ں کا چند ایک سوالات سے واسطہ پڑتا رہا ہے جیسا کہ اس کائنات کا بنانے والا کون ہے ۔؟زمین پر زندگی کا آغاز کسیے ہوا ۔؟ زندگی کا مقصد کیا ہے ۔؟ہم کیوں پیدا ہوئے اور کیو ں مر جاتے ہیں۔؟آیا ان سب معا ملات کے پس پردہ کو ئی باقاعدہ منصوبہ بندی ہے یا پھر سارا عمل خود بخود ہو رہا ہے۔ ہر دور کے لوگوں میں کائنات کے خالق کو جاننے کا جوش خروش پایا جاتا ہے (یہاں ایک اصول واضح کرتا چلو کہ اگر کوئی شخص کسی مسئلے کا حل تلاش نہ کر سکے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو مختلف زاویوں سے جانچے۔ یعنی تمام امکانات کا جائزہ لے) ا کثر اوقات دیانتداری سے مسئلہ کو حل کرنے کی کاوش خود بخود ہی مسئلہ کو آسان بنا دیتی ہے۔ لہذا انہی خطوط پر چلتے ہوئے لوگوں میں معاملات زندگی کو سمجھنے کی سوجھ بوجھ پیدا ہو گئی ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ اس کائنات کا خالق کو ن ہے۔ لوگوں نے اس کائنات (آفاق)کی تخلق سے متعلق تخلیق کرنا شروع کر دی۔ کائنات کے راز کو جاننے کے لیے مختلف روش اختیار کی گئیں۔

لوگو ں کے ایک گروہ نے آفاق کو اپنا مر کز چن کر کائنات کے اسرار کو جاننے کے لیے اسکالرشپ مطالعہ شروع کر دیا نتیجہ نا صرف قوانین اور مظاہر قد رت کو جانا بلکہ انتہائی مفید مشینری،الیکٹرانکس کے آلات و دیگر ایجادات کا ایک ڈھیر لگا دیا۔ ان تحقیقات کی بدولت سائنس نے ترقی کی اور نت نئی ایجادات کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا لہذا مستقل جستجو نے طبعی (Physical) اور زیستی (Biological) قوانین کے راز فاش کرنے شروع کر دیے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے باعث آجکا جد ید دور ان لوگوں کی مستقل تجقیقات اور جدو جہد کا نتیجہ ہے جنھوں نے اس کائنات کا ظاہری مطالعہ کیا۔ یہ تحقیق اپنی مسلسل پیش رفت کے باعث قدرت کے رازوں کو مسخر کرنے پر گامزن ہے۔

علاوہ ازیں لوگوں کے دوسرے گروہ نے بجائے اس کے کہ زندگی کی حقانیت کو آفاق میں تلاش کیا جائے خود انھوں نے ایک دوسری روش اختیار کی۔ ان لوگوں کی سوچ تھی کہ ا گراس ظاہری کائنات کا کو ئی خا لق ہے تو ان کے وجود (جسم )کا بھی کوئی خالق ہو گا؟ لہذا اس سوچ سے وہ بھی اس تخلیق کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے۔ اپنی تو جہ کائنات کے ظاہری وجود سے ہٹا کر اپنے وجو د ( نفس) کے اسرار کی کھوج میں لگا دی۔ اس طرح انھوں نے آفاق سے ہٹ کہ مطالعہ نفس میں دلچسپی لی اور اپنی ذات پہ تجربات کا ایک سلسلہ شروع کیا تا کہ اپنے اندر کے رازِ حقیقت کو سمجھا جائے اس طرح سے علم نورانی مذاہب کے سلسلے نے وجود پکڑا یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ تمام تجربات انسان کے اپنے (Software ) یعنی ذہن (MIND (پہ کیے گئے نہ کہ جسم پہ) پرانے وقتوں میں لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ یہ دنیا صر ف چار عناصر سے مل کر بنی ہے۔ زمین، پانی اور آگ اور ہوا، پھر سائنسی ایجادات کا سلسلہ چلا اور زیادہ سے زیادہ انکشافات سامنے آنے لگے اور یہ طے پایا کہ کائنات108عناصر سے ملکر بنی تھی۔ پھر ان 108عناصرکی پیچیدگیوں کے مطالعہ کے بعد یہ اخذ کیا گیا کہ یہ تمام عناصر صرف ایک ذرہ ایٹم (ATOM)سے ملکر بنے ہیں اور ان عناصر میں صرف فرق ایٹم کی ترتیب کا ہے۔ اس کے بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ایٹم ہی بنیادی ذرہ نہیں بلکہ الیکٹران ہی وہ بنیادی ذرہ ہے جو تمام دنیا کی اساس ہے۔ تاہم الیکٹران کی دریافت ایک مسئلہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ الیکٹران اگرچہ بنیادی ذرہ کہلایا مگر یہ مطلق ذرہ والی فطرت ظاہر نہ کر پایا یعنی ایک وقت میں وہ متحرک بھی تھا اور غیر متحرک بھی۔ کبھی یہ ذرہ کا کردار ادا کرتا اور کبھی ایک لہر کی شکل میں ہوتا۔ یہ معاملہ سائنسدانوں کے لیے انتہائی پیچیدہ ہو گیا کہ وہ الیکٹران کی اصل تعریف کیسے کر سکیں۔ لہذا ایک نئی اختر ع سا منے آئی اور الیکٹران دوہری خصوصیت کا حامل ٹھہرا ئے جو لہر کے ذرات ا ور کبھی صرف ذرہ کی خصوصیت کا اظہار کرتا۔ مگر جب اس الیکٹران پر مزید تحقیق جاری رکھی تو یہ کھوج ایک انتہائی درجے پر پہنچی کہ الیکٹران صرف اور صرف ایک کمترین توانائی کا ذرہ (Energy Particle)ہے اور یہ توانائی ہی کی خصوصیت ہے جو اپنے آپ کو الیکٹران میں تبدیل کرتی ہے اور بعد میں اس مادے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مشہور سائنس دان البرٹ آئن سٹاین کی مساوات E= MC2 بھی تمام مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہونے کے عمل کہ تقویت دیتی ہے۔ سائنسدانوں کی تمام تحقیق اب تک ہمیں یہاں تک لانے میں یقینی طور پہ کامیاب ہو ئی ہے کہ یہ درخشاں توانائی اپنے بنیادی درجہ پر اس کائنات میں جاری و ساری ہے۔ جبکہ ہر چیز ایک مخصوص جگہ گھیرتی ہے اور پھر توانائی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

یہ تو بات ہو رہی تھی ا ن لوگوں کے بارے میں جنھوں نے مسلسل آفاق کی تحقیق سے زندگی کے چند اسرار کا اندازہ لگایا اور ہمیں ہستی کے نئے میدان میں لاکھڑا کیا۔ اب ان لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جنھوں نے نفس کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا اور اپنے جسم و ذات پر یہ تحقیق شروع کر دی اور انھوں نے اپنی توجہ اپنے ا ند ر مرکوز کر دی جس کے نتیجہ میں نفوذ کرنے کے بہت سے طریقہ کار دریافت کیے تا کہ ا پنے اندر کا سفر کرکے اس اکائی (جز)کو تلاش کیا جا سکے جو کے ان کو اس کائناتی حقیقت سے مربوط کرتا ہے۔ اس کوشش نے علم نورانی (علم مراقبہ) کے عمل کو تقویت دی۔ تمام طریقہ کار جو مختلف طرح سے مراقبہ کے عمل میں نظر آتے ہیں وجود پائے۔ جس کا عمل دخل کم و بیش ہر مذہب کی اساس معلوم ہوتا ہے۔ آ ج مراقبہ کے عمل میں جو جدت اور انواع و اقسام کے طریقہ کار نظر آتے ہیں انہی لوگوں کے مرہون منت ہے جنھوں نے اپنے نفس کو تحقیق کے لیے چنا۔ ان تحقیقات اور مراقبہ کی مختلف حالتوں میں لوگوں نے محسوس کیا کہ اس سارے نظام عالم وجود میں شعوری توانائی کا نفوذ اور منسلکہ رشتہ ہے۔ مراقبہ کی گہری حالتوں میں اب ہر فرد واحد کا واسطہ ایک ا ہم گہرا احساس دلانے وا لے وجود یعنی خودی ( میں،SELF)سے پڑا اور یہ اخذ کیا گیا کہ یہ جو سلسلہ کائنات میں توانائی کا عمل دخل نظر آتا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ ایک اعلی حس آگاہی (Supreme Consciousness) ہے جس کا اس کائنات میں نفوذ ہے۔ اب ان تحقیقات مراقبہ اور سائنس میں کبھی کبھی ہم آہنگی ہونے کے ممکنات موجو د ہیں۔ اس فطرت کی ہر شے کچھ نہیں سوائے ایک مطلق حس آگاہی کے۔ یہ ایک اعلی مطلق خبر آگاہی جس کا ہر طرف نفوذ ہے اور یہی وہ اللہ ہے جو کائنات میں ہمیں اپنی ذات کے اندر اور باہر محسوس ہوتا ہے ( اللہ نور السمٰوات ولارض) ( ھو ا ول و آخر ظاہر و باطن) کبھی ہم اپنی ذات (خودی ) سے تعلق ہمیں ایک رابطہ ملتا ہے کہ ہم اپنے اللہ کو جانیں (من عرفہ نفسہ فقد عرفہ رب)۔ (یہاں یہ بات واضع کرتا چلوں کہ اس درجہ کے احساس خود شناسی پہ وحدت الوجود کا مغالطہ نہ ہو، اگلی کسی تحریر میں اس فلسفہ بھی بیان کردوں گا )۔ مراقبہ ایک عمل ہے جو اپنی گہری حالتوں میں کسی بھی شخص کے لیے وجود حقیقی سے روابط کا ذریعہ بنتا ہے

علم نورانی (مراقبہ)

[ترمیم]

مدتوں سے لوگ مراقبہ کو ایک انتہائی پرا سرار اور مشکل موضوع سمجھتے رہے ہیں ہمیشہ بڑے بوڑھے اور فار غ لوگوں کو اس کا حقدار سمجھا جاتا رہا ہے۔۔ مراقبہ پر پوری دنیا میں سائنسی طریقہ کار کے تحت تجربات کر کے اخذ کر لیا ہے کہ اس عمل سے انسانی ذہن اور جسم پر انتہائی اعلی مثبت اثرات مرتب ہو تے ہیں جس میں تعلیم و عمر کی کوئی قید نہیں اب کوئی بوڑھا ہو یا جوان سب ہی مراقبہ کی کرنے مے دلچسپی رکھتے ہیں مزید برآں اب تواسکول و کالج میں مراقبہ کی تعلیم کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے کم و بیش پوری دنیا میں مراقبہ کی تربیتی کلاسز کا اجرا ہو چکا ہے اعلی تعلیم یا فتہ ڈاکٹر اور صحتی ادارے اپنے مریضوں کو روزانہ مراقبہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں مراقبہ جو پہلے وقتوں میں صرف مذہب کا حصہ سمجھا جاتا تھا اب دنیاوی پیش قدمی کے علاوہ روز مرہ مسائل کے حل کے لیے بھی مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے آج پوری دنیا میں ذہنی دباﺅ کو کم کرنے اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے مراقبہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور اس کو آج کے وقت میں انتہائی میسر آلہ قرار دے دیا گیا ہے جوں جوں معاشرہ میں اس کی آگاہی بڑھتی جا رہی ہے نتیجہ میں انسانی بھائی چارہ اور عالمی اتحاد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جب زیادہ لوگ مراقبہ کی بدولت ذاتی شناسائی حاصل کرتے جائیں گے ان کو کائنات کی سچائی اور اصلیت کا قرب حاصل ہو گا اور نتیجہ عالمی بھائی چارہ وجود میں آئے گا۔

عبادت اور مراقبہ میں فرق

[ترمیم]

مراقبہ اور عبادت میں فرق پر بات کرنے سے پہلے یہ بات قابل توجہ ہے کہ عبادت سے مراد کس مذہب سے ہے؟ اگر یہاں مراقبہ سے مراد تمام مذاہب سے ہے تو پھر اس موضوع پر الگ الگ ہر مذہب کی عبادت سے مراقبے کا موازنہ لازم آتا ہے۔ لیکن پھر ایسی صورت میں اسے ---- عبادت اور مراقبہ میں فرق ---- کی بجائے ---- عبادت اور تعمق میں فرق ---- کہنا زیادہ موزوں ہوگا اور اس کی منطقی وجہ یہ ہے کہ مراقبہ (muraqibah) اپنی اصل میں اسلامی پس منظر رکھتا ہے اور مراقبہ اور عبادت میں فرق کی عبارت استعمال کی جائے تو اس سے ذہن میں مراقبہ اور نماز کا فرق ہی آتا ہے جبکہ meditation چونکہ ہر مذہب میں استعمال ہونے والا ایک تصور ہے (گو اس کے ہر زبان میں الگ الگ نام ہیں) اور عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں اس کے لیے مراقبے کے ساتھ ساتھ تُعمِّق کا لفظ لغات میں آتا ہے، لغات میں مراقبے کو استبصار بھی کہا جاتا ہے لیکن یہ اپنے معنوں میں enlightenment سے زیادہ قریب ہے۔

عبادات میں اللہ سے بات کی جاتی ہے اور اپنا رابطہ ازل سے جوڑا جاتا ہے مگر مراقبہ میں اپنے باطن کی ا تھا ہ گہرائیوں میں جا کر اپنے اللہ کو سنا جاتا ہے اور کائنات کی حقیقت سے نا صرف شناسا ہوا جاتا ہے بلکہ مشاہدۂ قدرت بھی کیا جاتا ہے۔ مراقبہ کا نصب العین (مقصد)صرف اور صرف آپ کے جسم، جذبات ،اور ذہن کو یکجا کرنا ہے اور اس اعلی درجے کی یکسوئی کا مقصد صرف اپنے باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونا ہے یہیں سے کشف و وجدان کے دھارے پھوٹتے ہیں۔ اس طرح ایک انسان کا رابطہ کائنات کی اصل سے جڑ جاتا ہے اور علم و عر فان کے چشمے پھو ٹ پڑ تے ہیں۔ کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اور انسان پستی کے گرداب سے نکل کر ہستی کے نئے میدان میں آ جاتا ہے جہاں ہر طرف بہار ہی بہار ہے۔ بہار بھی ایسی کہ خزاں نہیں ہوتی اور سوچ انسانی آسمان کی بلندی کو چھوتی ہے اور لذت بھی ایسی

ع کہ جیسے روح ستاروں کے درمیاں گذرے

یہی زندگی کا موسم بہار ہے جس کے آ جانے کے بعد ہر طرف کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور انسانی سوچ کا سفر ایک نئی سمت گامزن ہو جاتا ہے۔ جس کے سامنے ایک وسیع و عریض میدان عمل ہے اور یہاں کی سلطنت میں صرف آج کی حکمرانی جبکہ گذشتہ کل کی کسی تلخی کا دکھ نہیں اور آنے والے کل کی خوشیوں کا دور دورہ ہے۔ یہاں لذت و سرور کا وہ سماں ہے جو دنیا کے کسی نشے میں نہیں۔ اور خواب حقیقت کے روپ میں بدل جاتے ہیں جبکہ زندگی سوچوں کی تنگ و تاریک گلیوں میں دھکے کھانے کی بجائے روشن اور وسیع میدانوں میں سفر کرتی ہے۔ اب اس کا سفر کوئی سڑاند والا جوہڑ نہیں جس میں وہ غوطے کھائے بلکہ ایک بحربیکراں جس کے سفینے صرف کامیابی ،خشحالی اور سکون کی منزل تک لے جاتے ہیں۔

= نفس، میں (مثلاSelf, I, Ego) اور مراقبہ =Meditation

[ترمیم]

درحقیقت آپ صرف ایک احساس خودی (Self) ہیں۔ اور یہ حس آگاہی ہے نہ کے آپ کا ذہن، جسم یا پھر خیالات بلکہ اس مکمل شعوریت (خودآگاہی) ہیں جو محسوس کرتی ہے۔ اور شاہد بنی ہوئی ہیں کہ آپ زندگی میں کیا رول ادا کر رہے ہیں۔ یہ احساس خودی اپنی خاصیت کے اعتبار سے انتہائی پر سکون، ٹھہراﺅ والا ،از سرنو زندگی بخشنے والا ہے۔ مراقبہ ایک خودی (Self )کو اپنے اندر جاننے کا عمل ہے۔ اس موقع پہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک فرد یہ کس طرح جان سکتا ہے کہ اس کے اندر خودی (Self ) موجود ہے جوان تمام واقعات و حالات کا مشاہدہ کر رہی ہے جو ہمارا ذہن یا جسم اس زندگی میں کر رہا ہے۔ یہ بات یہاں تک واضح ہو گئی کہ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے۔ جو ہمیں اپنے اندر موجود خودی (Self) سے ملانے کا ذریعہ بنتا ہے اور یہ خودی اپنی خاصیت کے اعتبار سے انتہائی پر سکون، ٹھہراﺅ والی اور از سرنو زندگی بخشنے والی ہے۔ لہٰذا ہم چاہے ںگئے کہ مراقبہ کو سمجھنے کے لیے ہم سب سے پہلے اپنے اندر موجود خودی (Self) کو جانیں۔ آپ اس خودی کو اور بھی نام دے سکتے ہیں۔ مثلاً، نفس، میں (مثلاSelf, I, Ego) وغیرہ آئیے اب ایک چھوٹا سا تجربہ کرتے ہیں جو انتہائی دلچسپی کا حامل ہے اور آپ کے لیے اس (میں ) سے شناسا ئی کا ذریعہ بنے گا۔

میں(Self) کا انسانی وجود سے تعلق

[ترمیم]

”آپ اپنی آنکھیں بند کر کے کوئی ایک لفظ، کسی کا نام یا اللہ کا نام 25 مرتبہ اپنے ذہن میں دہرائیں مگر گنتی دل ہی دل میں ہونی چاہیے مگر گنتی کرتے ہوئے ذہن میں کوئی اور خیال نہیں آنا چائیے اور اگر گنتی میں کوئی غلطی ہو تو دوبارہ سے گنتی شروع کر دیے۔ مگر گنتی ذہن میں ہی رہے ناکہ ہاتھوں یا انگلیوں پہ“ اس تجربہ کے کرنے کے بعد ہو سکتا ہے کہ آپ کامیابی کے ساتھ25 مرتبہ ایک لفظ اپنے ذہن میں گنتے رہے ہوں گے اور خیال بھی ذہن میں آتا ہوگا۔ یا ہو سکتا ہے کہ چند خیالات ذہن سے گذرے ہوں۔ یا پھر پہلی کوشش ناکام ہو گئی ہو اور کئی مرتبہ اس تجربہ کو کرنا پڑا ہو تو پھر جا کر 25 مرتبہ کی گنتی پوری ہوئی ہو یا پھر خیالات بھی آ رہے ہوں اور گنتی بھی جاری رہی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کامیابی کے ساتھ یہ تجربہ نہ کر پائے ہوں کہ آپ 25 مرتبہ کوئی ایک لفظ دہرائیں اور کوئی خیال بھی ذہن میں نہ آئے ۔

مراقبہ اور ذات (Self ) سے شناسائی

معاملہ کچھ بھی، تجربہ کچھ بھی ہو، بات حقیقت ہے کہ آپ اپنے اندرونی خودی (Self ) کے وجود کا انکار نہ کرپائیں گے۔ کیونکہ جب آپ کا ذہن گنتی میں مصروف تھا تو وہ کون تھا جو مشاہدہ کر رہا تھا کہ ذہن سے خیالات گذر رہے ہیں؟وہ کون تھا جو ایک ہی وقت میں مشاہدہ کر رہا تھا کہ ذہن میں خیالات بھی آ رہے ہیں اور گنتی بھی ہو رہی ہے؟ کیونکہ آپ کا ذہن کو یقینا گنتی میں مصروف تھا۔ یقینا آپ کہیں گے کہ وہ میں تھا جو دیکھ رہا تھا کہ کوئی خیال ذہن میں آ رہا ہے اور گنتی بھی صحیح ہو رہی ہے۔ وہ کون تھا جو مشاہدہ کر رہا تھا؟ آپ کا جسم یا پھر آپ کا ذہن؟ یا پھر آپ خود؟ اگر آپ یہ سارا عمل دیکھ رہے تھے تو آپ کو اپنے ذہن اور جسم سے علاحدہ ہونا چاہیے۔ جی ہاں! دراصل یہ حس آگاہی ہی تو خودی (Self-I) ہے جو آ پکو اپنے خیالات تصورات سے آگاہ کرتی اور صرف اور صرف خودی (Self-me) ہی ہے جو آ پکو بتلاتی ہے کہ ا پکے اندر اور باہر کیا ہو رہا ہے؟ کہاں ہو رہا ہے؟ و دیگر سے آگاہی کا سبب بنتی۔ اس جاننے والے کو جاننے کا عمل ہی مراقبہ ہے۔ مراقبہ دراصل اپنی ذات سے شناسائی کا عمل ہے .

بیرونی روابط

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]