مندرجات کا رخ کریں

مانیٹوبا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مینیٹوبا

"مینی ٹوبا" کینیڈا کے دس صوبوں میں سے ایک ہے۔ اس کی کل آبادی 1190400 ہے۔ اس کو وفاقی حکومت نے 1870 میں شمال مغربی ریاست سے الگ حصہ تسلیم کیا اور یہ ریاستوں سے الگ ہونے والا پہلا صوبہ بنا۔ تین زرعی صوبوں میں سے یہ مشرقی صوبہ ہے۔ مینی ٹوبا کا لفظ مقامی لفظ مینی ٹو سے بنا ہے جس کا مطلب روح ہے۔ مینی ٹوبا میں سرخ دریا کے علاقے میں کینیڈا کی پہلی مغربی نو آبادی قائم ہوئی تھی۔ مینی ٹوبا کینیڈا کا واحد صوبہ ہے جس کے پاس آرکٹک گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے جو چرچل کے مقام پر خلیج ہڈسن کے ساتھ موجود ہے۔ مینی ٹوبا کی شمالی بندرگاہ کینیڈا سے ایشیا تک مختصر ترین بحری راستہ ہے۔

اس کا دار الخلافہ اور سب سے بڑا شہر (جس میں صوبے کی آدھی آبادی رہتی ہے) ونی پگ ہے۔ اس کی کل آبادی 710000 شہر کے اندر ہے جبکہ 10000 افراد برانڈن، تھامپسن، پورٹیج لا پریری اور سٹین بچ میں بھی رہتے ہیں۔

مینی ٹوبا کے باسی کو مینی ٹوبن کہتے ہیں۔

جغرافیہ

[ترمیم]

مینی ٹوبا طول بلد کے لحاظ سے کینیڈا کے وسط میں واقع ہے۔ تاہم اسے مغربی کینیڈا کا حصہ بھی مانا جاتا ہے۔ اس کی سرحدیں مغرب میں ساسکچیوان، مشرق میں اونٹاریو، شمال میں نناوت اور خلیج ہڈسن اور جنوب میں امریکی ریاستوں شمالی ڈکوٹا اور منی سوٹا سے ملتی ہیں۔

صوبے کی طویل ساحلی سرحد خلیج ہڈسن سے ملی ہوئی ہے اور اس میں دنیا کی دسیوں بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے۔ اس کا نام جھیل ونی پگ ہے۔ یہاں دو اور بڑی جھیلیں بھی ہیں جن کے نام جھیل مینی ٹوبا اور جھیل ونی پیگوسس ہیں۔ مینی ٹوبا کی جھیلوں نے صوبے کا تقریباً ساڑھے چودہ فیصد حصہ گھیرا ہوا ہے۔ جھیل ونی پگ کینیڈا کی جنوبی سرحدوں میں موجود سب سے بڑی جھیل ہے۔ اس کی مشرقی طرف دنیا کے چند دور افتادہ اور ان چھوئے پانی کے ذخیرے موجود ہیں۔ زیادہ تر جنوبی علاقوں کے جنگلاتی کیری بو کے جھنڈ جھیل ونی پگ کی مشرقی طرف ملتے ہیں۔ اس جھیل کے مشرقی ساحل پر بے شمار غیر آباد جزائر بھی موجود ہیں۔ صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں جھیلیں موجود ہیں۔ زیادہ اہم دریاؤں میں ریڈ، اسینی بوئن، نیلسن، ونی پگ، ہائز، وائٹ شیل اور چرچل دریا ہیں۔

صوبے کا زیادہ تر آباد جنوبی حصہ قبل از تاریخ کی گلیشئر کی آگاسز کی تہ میں ہے۔ صوبے کا جنوب وسطی حصہ مسطح ہے اور یہاں چند ایک پہاڑیاں موجود ہیں۔ تاہم صوبے میں بہت سارے پہاڑی اور پتھریلے علاقے بھی موجود ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ یہاں گلیشئر کے پگھلنے سے بننے والے ریت کے میدان بھی۔ کوہ بالڈی صوبے کا سب سے اونچا مقام ہے جو کل 832 میٹر سطح سمندر سے بلند ہے۔ خلیج ہڈسن کا کنارہ سب سے نشیبی علاقہ ہے جو سطح سمندر پر واقع ہے۔ دوسرے بلند علاقوں میں رائڈنگ پہاڑ، پم بینا پہاڑیاں، سینڈی لینڈ صوبائی جنگلات اور کینیڈین شیلڈ ہیں۔ صوبے کا شمال اور مشرق انتہائی کم آباد ہے اور زیادہ تر گریفائٹ کی بے ترتیب چٹانوں کے درمیان آباد ہے۔ ان میں وائٹ شیل صوبائی پارک، آٹکاکی صوبائی پارک اور نوپیمنگ صوبائی پارک ہیں۔ پرندوں کا پہاڑی صوبائی پارک دراصل قبل از تاریخ کی آگاسز جھیل میں موجود ایک جزیرے پر بنایا گیا ہے جو اس وقت کے گلیشئرز کے پگھلنے سے بنی تھی۔

صوبے کا جنوبی حصہ زراعت کے لیے انتہائی زرخیز ہے۔ یہاں موجود دیہاتی فارموں میں ایک تہائی سے زیادہ فارم مویشیوں کے ہیں۔ تقریباً بیس فیصد حصہ غلہ جات اور خوراک سے متعلقہ چیزیں پیدا کرتے ہیں۔ تقریباً آٹھ فیصد روغنی بیج پیدا کرتے ہیں۔ کینیڈا کی کل فارم کی زمین کا بارہ فیصد حصہ مینی ٹوبا میں موجود ہے۔ مشرقی، جنوب مشرقی اور شمالی علاقوں میں کونی فیرس جنگلات، مسکگ، کینیڈین شیلڈ اور ٹنڈرا انتہائی شمال میں ہیں۔ جنگلات صوبے کی ساڑھے پانچ کروڑ ہیکٹر زمین کا اڑتالیس فیصد یعنی دو کروڑ تریسٹھ لاکھ ہیکٹر ہیں۔ جنگلات میں بالخصوص پائن، سپروس، لارچ، پاپلس اور برچ کے درخت ہیں۔ کچھ جگہوں پر مشرقی سفید سیڈار بھی پایا جاتا ہے۔ دنیا کے معدودے چند بوریل جنگلات کا ایک حصہ جھیل ونی پگ کی مشرقی طرف پایا جاتا ہے۔ یہاں بہت سارے صاف اور تازہ دریا بہتے ہیں۔ یہ سارا علاقہ ہزاروں سالوں سے محض مچھلی کے شکار، عام شکار وغیرہ کے لیے ہی استعمال ہوتا آ رہا ہے۔

موسم

[ترمیم]

براعظم شمالی امریکا میں اپنی وسطی موجودگی کی وجہ سے مینی ٹوبا موسم کافی سخت ہوتا ہے۔ عموماً درجہ حرارت اور ہوا میں نمی جنوب سے شمال کی طرف کم ہوتے جاتے ہیں اور ہوا میں نمی مشرق سے مغرب کی طرف بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ مینی ٹوبا پہاڑی سلسلوں اور عظیم جھیلوں سے دور ہے، اس لیے یہاں موسم اتنا معتدل نہیں ہو پاتا (مینی ٹوبا کی تمام بڑی جھیلیں سردیوں کے مہینوں میں جم جاتی ہیں)۔ اپنی زیادہ تر ہموار سطح کے باعث مینی ٹوبا میں سال بھر کئی طرح کے موسم پائے جاتے ہیں جن میں آرکٹک سے آنے کر یہاں رک جانے والے ہوا کے زیادہ دباؤ کی وجہ سے لمبی سردیاں شامل ہیں۔ جنوبی مینی ٹوبا میں گرمیوں میں زیادہ نمی ہوتی ہے اور درجہ حرارت 50٫3 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ کینیڈا کا انتہائی درجہ حرارت ہے۔ یہاں کل تین موسمی خطے ہیں۔

انتہائی جنوب مغربی کونے میں نیم بنجر موسم ہے۔ یہ علاقہ جنوبی مینی ٹوبا کی نسبت زیادہ خشک ہے اور یہاں اکثر بارشیں نہیں ہوتیں۔ سردیوں میں یہ انتہائی سرد ہو جاتا ہے اور تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ اس کے علاوہ سردیوں میں برفانی طوفان بھی بکثرت آتے ہیں کیونکہ یہ سارا علاقہ کھلا ہے۔ گرمیاں عموماً گرم سے گرم تر ہوتی ہیں اور ہوا میں نمی کا تناسب کم رہتا ہے۔

بقیہ جنوبی مینی ٹوبا پر جس میں ونی پگ بھی شامل ہے، نمدار براعظمی موسم رہا ہے۔ یہاں کے درجہ حرارت اوپر بیان کردہ علاقے سے بہت ملتے جلتے رہتے ہیں تاہم اس جگہ زیادہ نمی ہوتی ہے اور یہاں مناسب مقدار میں بارش بھی ہوتی ہے۔ یہاں کی سخت سردیوں کی وجہ سے ونی پگ کو عرف عام میں ونٹر پگ کہا جاتا ہے۔

صوبے کے وسطی اور شمالی حصے، مینی ٹوبا کا زیادہ تر زمینی حصہ، سب آرکٹک زون میں آتا ہے۔ اس علاقے میں لمبی اور شدید سردیاں عام ہیں جبکہ مختصر گرمیاں اور نسبتاً کم بارش ہوتی ہے۔ یہاں ہر سال کئی کئی دن تک رات کا درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری تک گر سکتا ہے اور چند ہفتے منفی اٹھارہ ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی رہ سکتا ہے۔

گرمیوں کے مہینوں میں موسم پر ہوا کے کم دباؤ کا اثر رہتا ہے جو خلیج میکسیکو سے اٹھتی ہیں۔ ان کا اکثر ٹکراؤ شمال اور مغرب میں نسبتاً خشک ہواؤں سے ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ گرم اور نم موسم میں نکلتا ہے اور اکثر گرج چمک ہوتی ہے۔ صوبے کے جنوبی حصوں میں ہر سال چند ایک گردباد آتے ہیں۔ 2006 میں پندرہ گردباد آئے تھے۔ 2007 میں 22 اور 23 جولائی میں بہت سے گردباد آئے جن میں سے ایک ف 5 درجہ کا تھا جو کینیڈا میں سب سے سخت گردباد تھا۔ اس کے علاوہ ایک ف 3 درجے کا گردباد بھی عکس بند ہوا ہے۔ ہر سال گرمیوں میں درجہ حرارت کئی بار 35 ڈگری سے تجاوز کر جاتا ہے اور گرمی اور نمی کی وجہ سے یہ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔

تاریخ

[ترمیم]

جغرافیائی اعتبار سے آج مینی ٹوبا کہلانے والا علاقہ پچھلے برفانی دور کے بعد اس وقت آباد ہوا جب گلیشئر جنوب مغرب کی طرف ہٹے۔ سب سے پہلی زمین جو برف سے آزاد ہوئی ہو ٹرٹل کا پہاڑی علاقہ تھا۔ یہاں پتھروں سے بنی حدیں اور مذہبی دائرے وغیرہ عام دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں پہلے انسانی باقیات میں برتن، نیزے اور تیروں کے سرے، تانبے، پتھروں سے بنی لکیریں، حروف، مچھلیوں اور جانوروں کی ہڈیاں اور دریائے ریڈ کے کنارے لاک پورٹ کے نزدیک کھیتی باڑی کے آثار شامل ہیں۔ آخر کار یہاں قدیم مقامی لوگ آ کر آباد ہوئے جو اوجیبوا، کری، ڈینی، سیوکس، مانڈان اور اسینی بوئن تھے۔ اس کے علاوہ دیگر قبائل بھی جو اس علاقے میں تجارت کی نیت سے آئے۔ یہاں ہمیں زمین پر بہت سے نشانات سے علم ہوتا ہے کہ کیسے یہاں پانی اور خشکی، دونوں جگہ ان کا تجارتی جال پھیلا ہوا تھا۔ وائٹ شیل صوبائی پارک کا علاقہ ونی پگ دریا سے تعلق رکھتا ہے اور یہاں کئی پرانے مذہبی آثار ہیں جو شاید تجارتی مراکز میں واقع ہوں یا پھر 2000 سال پرانے تعلیمی ادارے۔ گھونگھے کے خول اور تانبا کی اس علاقے میں موجودگی سے ثابت ہوت اہے کہ ان تجارتی مراکز سے کیا چیزیں سمندر اور پھر دوسری جنوبی تہذیبوں کو منتقل کی جاتی ہوں گی۔ شمالی مینی ٹوبا میں کے کچھ علاقوں میں کوارٹز کے لیے کان کنی کی جاتی تھی جس سے یہ لوگ تیروں کے سرے بناتے تھے۔ مینی ٹوبا میں پہلی کھیتی باڑی کے آثار ریڈ دریا کے کنارے لاک پورٹ کے پاس ملتے ہیں جہاں مکئی اور دوسری غلہ دار اجناس کو یورپیوں کی آمد سے قبل اگایا جاتا تھا۔ ہزاروں سال تک اس جگہ انسان آباد رہے ہیں اور آثار قدیمہ سے ان کی زندگی اور رہن سہن کا ثبوت ملتا ہے۔ انسان کی بنائی ہوئی چیزوں اور پتھروں پر کندہ تصاویر کے بارے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ مینی ٹوبا کی قدیم ثقافتوں کے بارے تفصیل معلوم ہو سکے۔

1611 میں ہنری ہڈسن ان پہلے یورپیوں میں سے ایک تھا جو خلیج ہڈسن تک پہنچے۔ 1668 اور 1669 میں جو جہاز یہاں پہنچا، وہ اس علاقے میں پہلا تجارتی بحری سفر تھا۔ اس کے نتیجے میں ہڈسن بے کمپنی قائم ہوئی۔ اس کمپنی کو پوری خلیج ہڈسن، موجودہ البرٹا، ساسکچیوان، مینی ٹوبا، اونٹاریو، منی سوٹا، شمالی ڈکوٹا وغیرہ میں کھالوں کی تجارت کے تمام تر حقوق دے دیے گئے۔ خلیج ہڈسن کے پانیوں کو شہزادہ رپرٹ کے نام پر جس نے ہڈسن بے کمپنی کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، رپرٹس لینڈ کا نام دیا گیا۔ یارک فیکٹری دراصل ہڈسن بے کمپنی کا مضبوط ترین گڑھ تھی۔ دوسرے انگریز تاجر اور مہم جو خلیج ہڈسن کے ساحلوں پر اترتے اور پھر شمالی مینی ٹوبا کے دریاؤں کے ساتھ ساتھ جنوب کو روانہ ہو جاتے۔ سر تھامس بٹن وہ پہلے یورپی تھے جو آج کے وسطی اور جنوبی مینی ٹوبا پہنچے۔ انھوں نے نیلسن دریا کے ساتھ اوپر کی طرف سفر کیا اور جھیل ونی پگ 1612 میں پہنچے۔ شاید وہ یہاں گھاس کے میدانوں تک بھی پہنچے ہوں اور انھوں نے جنگلی بھینسے کو دیکھنے کی اطلاع بھی دی۔ پیئر گوالٹر ڈی وارینیس، سیور ڈی لا ویرینڈری نے سرخ دریا کی وادی کو 1730 کی دہائی میں عبور کیا جس سے اس علاقے میں فرانسیسی مہموں اور کھالوں کی تجارت کا راستہ کھلا۔ کئی دوسرے فرانسیسی مہم جو بھی مشرق اور جنوب سے آئے اور ونی پگ دریا کے ساتھ ساتھ نیچے اترے۔ مینی ٹوبا میں فرانسیسی۔ کینیڈین آبادی کا ایک حصہ جنوبی ونی پگ کے ضلع میں آباد ہے۔ نارتھ ویسٹ کمپنی اور ہڈسن بے کمپنی کی طرف سے ان علاقوں میں کھالوں کی تجارت کے لیے قلعے بنائے گئے اور وقتاً فوقتاً یہاں خونریز تصادم بھی ہوتے رہے۔ آخر کار 1763 میں انڈین اور فرانسیسیوں سے جنگ کے بعد برطانیہ نے اس سارے علاقے پر قبضہ کر لیا۔

مینی ٹوبا کے لفظ کی توجیہ کئی طرح سے کی جا سکتی ہے۔ عمومی خیال ہے کہ یہ کری یا اجیبوی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی آبنائے مینی ٹو (روح) ہے۔ شاید یہ ایسینی بوئنے زبان کا لفظ ہو جس کا مطلب گھاس کے میدانوں کی جھیل ہو۔

مینی ٹوبا کے زیادہ تر دریا اور پانی عموماً جنوب یا مشرق کی طرف نہیں بلکہ شمال کی طرف بہتے ہیں اور خلیج ہڈسن جا گرتے ہیں۔ ہڈسن بے کے آرکائیو ونی پگ، مینی ٹوبا میں محفوظ ہیں جو رپرٹ لینڈ کے علاقے میں ہونے والی کھالوں کی تجارت کی تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں۔

1812 میں لارڈ سیلکرک کی طرف سے یہاں کی پہلی زرعی کمیونٹی اور نو آبادیوں کے قیام کے بعد وہ علاقہ جو اب ونی پگ شہر کا حصہ ہے، یہاں رہنے والے اور کھال کی تجارت کرنے والے مقامیوں اور برطانویوں کے درمیان تنازعے کا باعث بن گیا۔ بیس برطانویوں کو جن میں گورنر بھی شامل تھا، مقامیوں نے جنگ سیون اوکس میں 1816 میں ہلاک کر دیا۔ اس جنگ میں ثالثوں نے پہلی گولی چلائی۔ ایک مقامی بھی ہلاک ہوا۔ اس عرصے میں کئی کھالوں کی تجارت کے قلعوں پر بھی حملے ہوئے۔

جب رپرٹس لینڈ کو کینیڈا نے 1869 میں شمال مغربی ریاست کے لیے حاصل کر لیا تو مقامیوں کی طرف ہونے والی زیادتیوں کے لیے انھوں نے لوئیس ریل کو اپنا بڑا چن لیا تاکہ بغاوت کے دوران صوبائی حکومت قائم کی جا سکے۔ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکرات کا نتیجہ مینی ٹوبا کا بطور صوبہ اور پھر وفاق میں 1876 شمولیت عمل میں آئی۔ تاہم لوئیس ریل کے خلاف بغاوت کی وجہ سے مقدمہ چلا اور وہ بیرون ملک فرار ہو گیا۔ مقامی لوگوں کو اس زمین سے روک دیا گیا جو کینیڈا میں شمولیت کی بنیاد پر انھیں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ متواتر آنے والے سفید فام نسل پرستوں سے تنگ آ کر مقامی لوگ ساسکچیوان اور البرٹا کی طرف منتقل ہو گئے۔

شروع میں مینی ٹوبا موجودہ رقبے کا محض اٹھارہواں حصہ اور مربع شکل کا تھا۔ اسے عموماً ڈاک کے ٹکٹ والے صوبے کا نام بھی دیا جاتا تھا۔ اس میں تیزی سے ترقی ہوتی رہی اور شمال مغربی ریاست سے زمین اس میں شامل ہوتی رہی حتٰی کہ یہ اپنے موجودہ حجم تک 1912 میں آن پہنچا۔

1800 کے اختتام پر آج کے مینی ٹوبا کی مقامی آبادیوں سے بے شمار معاہدے کیے گئے۔ ان معاہدوں کا مقصد یہ تھا کہ ہر خاندان کے لیے زمین کی مناسب مقدار، دوائیں اور سالانہ معاوضے وغیرہ شامل تھے۔ اس سے وفاقی حکومت کے تحت ریزرو سسٹم کی بنیاد پڑی۔ ابھی تک بہت سارے زمینوں کے دعوے باقی ہیں کیونکہ جتنی زمینوں کے وعدے کیے گئے تھے، اتنی دی نہیں گئی تھیں۔

مینی ٹوبا میں اسکول میں کیے جانے والے سوالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست کی ثقافتی اقدار کتنی گہری ہیں۔ فرانسیسیوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انھیں ریاست میں ان کی زبان کے اسکول مہیا کیے جائیں گے لیکن 1888 تا 1890 تک جاری رہنے والی تحاریک نے مطالبہ کیا کہ فرانسیسی اسکولوں کو ختم کر دیا جائے۔ 1890 میں مینی ٹوبا کی مقننہ نے فیصلہ کیا کہ فرانسیسی کو صوبے کی سرکاری زبان کا درجہ سے ختم کر دیا جائے اور کیتھولک اسکولوں کی امداد بند کر دی گئی۔ فرانسیسی کیتھولک عوام نے وفاقی حکومت سے امداد مانگی لیکن اورنج آرڈر اور دیگر کیتھولک مخالف تحاریک نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی۔ کنزرویٹو نے ایسے قانون کی منظوری کا مطالبہ کیا جو مینی ٹوبا کے قانون کو بیکار بنا دے لیکن اس تجویز کو لبرل نے ولفریڈ لائریر کی سربراہی میں روک دیا۔ اس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ اس سے صوبائی حقوق متائثر ہوں گے۔ 1896 میں جب لائریر وزیر اعظم بنے تو انھوں نے ایک نیا فیصلہ متعارف کرایا۔ اگر اسکولوں میں اختتام پر طلبہ کی معقول تعداد موجود ہو تو تیس منٹ کی کیتھولک تعلیمات دی جائیں گی۔ آنے والی کئی دہائیوں تک صوبے اور ملک بھر میں زبان کی وجہ سے پیدا ہونے والی سنگینیاں منڈلاتی رہیں۔

1900 کے اوائل میں ونی پگ کینیڈا کا چوتھا بڑا شہر بن چکا تھا۔ بوم ٹاؤن کے طور پر یہ شہر 1800 سے 1900 تک بہت تیزی سے بڑھا۔ یہاں بے شمار بیرونی سرمایہ کار، تارکین وطن اور ریلوے موجود تھیں۔ کاروبار اپنے عروج پر تھا۔ حتٰی کہ آج بھی آپ ونی پگ کی اس دور کی شاندار عمارتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ جب مقننہ بنائی گئی تو اندازہ تھا کہ جلد ہی مینی ٹوبا کی آبادی تیس لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں شہر میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں کیونکہ اب پہلے جیسا سرمایہ نہیں لگ رہا تھا۔ ونی پگ دیگر شہروں بالخصوص کیلگری سے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا۔

1917 کے انتخابات معاشی اور فوجی بحران کے دوران منعقد ہوئے۔ لبرل دو حصوں میں منقسم ہو چکے تھے اور ایک نشست کے سوا باقی تمام کی تمام نشستیں نئی یونین پارٹی نے حاصل کر لیں۔ جنگ کے اختتام پر کسانوں اور یونین کے اراکین کو دیے جانے والے اضافی معاوضوں نے ریڈیکلوں کو بہت اوپر کر دیا۔ روس میں بالشویکوں کے بر سر اقتدار آنے کی وجہ سے کنزریوٹو متفکر اور ریڈیکل بہت متحرک ہو گئے۔ اس ساری صورت حال کی سب سے گھمبیر شکل 1919 میں ہونے والی چھ ہفتے لمبی ہڑتال تھی جس سے زیادہ تر کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئیں۔ 15 مئی میں یہ ہڑتال شروع ہوئی اور 25 جون 1919 تک جاری رہی۔ جب ورکر آہستہ آہستہ کاموں کو لوٹنے لگے تو سینٹرل سٹرائیک کمیٹی نے ہڑتال کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

حال ہی میں بہت سارے مؤرخین نے اس ہڑتال سے متعلق مورٹن کے نظریے کو رد کیا ہے اور اس سے بہت مختلف تاریخیں بیان کی ہیں۔

اس ہڑتال کے نتیجے میں 8 ہڑتالی رہنماؤں پر مقدمہ چلا اور زیادہ تر پر غیر قانونی سازش، غیر قانونی اجتعماعات، غیر قانونی افواہوں کے جرم عائد کیے گئے۔ ان میں سے چار کینیڈا کے باشندے نہیں تھے جنہیں ملک بدر کر دیا گیا۔ اس سے مزدور کمزور ہوئے اور منقسم ہو گئے۔ کسان جو اس دوران صبر سے خود کو یونائٹڈ فارمرز آف مینی ٹوبا کے تحت منظم کرتے رہے تھے، 1920 کے صوبائی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے تھے۔ کسان جو حسب معمول سیاست کے خلاف لڑ رہے تھے، 1922 میں 30 نشستیں جیت گئے۔ ان کے خلاف 7 لبرل کو، 6 کنزرویٹو کو، 6 ہی لیبر کو اور 8 آزاد امیدواروں نے اپنی اپن نشستیں جیتیں۔

مینی ٹوبا کی حکومت کا ڈھانچہ

[ترمیم]

مینی ٹوبا پر یک ایوانی مقننہ کی حکمرانی ہے۔ اسے مینی ٹوبا کی قانون ساز اسمبلی کہتے ہیں۔ یہ ویسٹ منسٹر کے نظام کے تحت کام کرتی ہے۔ اس میں ایگزیکٹو بازو حکمران یا اکثریتی پارٹی کا ہوتا ہے اور پارٹی لیڈر مینی ٹوبا کے پریمئر کا کام سر انجام دیتا ہے۔ پریمئر حکومت کے سربراہ کو کہتے ہیں۔ ریاست کا سربراہ لیفٹننٹ گورنر آف مینی ٹوبا ہوتا ہے جو کینیڈا کے وزیر اعظم کی مشاورت سے کینیڈا کا گورنر جنرل متعین کرتا ہے۔ حکومت کے سربراہ کا یہ عہدہ محض نمائشی ہوتا ہے۔

مینی ٹوبا کی حکومتی شاخ کے کل 57 اراکین ہوتے ہیں جنہیں مینی ٹوبا کے باشندے منتخب کرتے ہیں۔ یہ ممبر چیمبر کے اندر نصف دائرے کی شکل میں بیٹھتے ہیں جو کینیڈا بھر میں منفرد ہے۔

مینی ٹوبا کی اہم سیاسی جماعتیں نیو ڈیمو کریٹک پارٹی آف مینی ٹوبا، دی پروگریسو کنزرویٹو پارٹی آف مینی ٹوبا اور لبرل پارٹی آف مینی ٹوبا ہیں۔

قانون ساز اسمبلی کا قیام

[ترمیم]

مینی ٹوبا کی قانون ساز اسمبلی 14 جولائی 1870 میں قائم ہوئی۔ شروع میں اسے پارلیمنٹ کہا گیا اور پھر بعد میں اسے مقننہ کا نام دیا گیا۔ شمال مغربی ریاست سے نکلنے والے صوبے کے طور پر مینی ٹوبا کو آزاد خود مختار حکومت کے اختیارات اور ذمہ داریاں مل گئیں۔ یہ کنٹرول برطانوی حکومت کی طرف سے کینیڈا کو 1869 میں تفویض کیا گیا۔ اس کی وجہ رپرٹس لینڈ کی ہڈسن بے کمپنی کی طرف سے فروخت تھی۔ پہلی چند دہائیوں میں مینی ٹوبا کو ڈاک کے ٹکٹ والے صوبے کے نام سے جانا جاتا تھا کیونکہ شروع میں یہ بالکل مربع شکل کا تھا۔ اس وقت اس میں صوبے کے موجودہ جنوبی حصے کا محض چالیس فیصد حصہ تھا۔

شمال مغربی ریاست سے مینی ٹوبا کی علیحدگی کا عمل بہت تیز تھا کیونکہ سرخ دریا کے علاقے میں مقامیوں اور لارڈ سیلکرک کے باشندے آباد ہو رہے تھے۔ دریائے سرخ کی کالونی اور فورٹ گیری کا علاقہ مغرب میں واحد کالونی تھے اور یہاں مقامیوں نے الحاق سے قبل کچھ عرصہ تک اپنی صوبائی حکومت بنائے رکھی۔ ساکسچیوان اور البرٹا میں شمال مغربی ریاست سے علیحدگی کا عمل بہت سست رہا۔ یہ 1905 میں الگ ہوئیں۔

1870 میں مینی ٹوبا کو خود مختار صوبہ بنانے کی تجویز کے پیچھے یہ تین عوامل کار فرما تھے:

  • کینیڈا کے حکام کی غلط فہمیاں
  • مقامی باشندوں اور لوئیس ریل کی طرف سے قائم کی جانے والی صوبائی حکومت
  • امریکا میں موجود وہ تحریک جس کے تحت امریکی لوگ اپنی سرحدیں بحر اوقیانوس سے بحرالکاہل تک پھیلانا اپنا حق سمجھتے تھے، اگرچہ امریکیوں نے اس کی تردید کی

صوبائی درجہ والی بات کینیڈا، برطانیہ اور ہڈسن بے کمپنی سے ہونے والی گفت و شنید میں ابتدا میں سامنے نہیں آیا۔ اس وقت یہ سننے میں آیا تھا کہ 1869 میں رپرٹس لینڈ کی عارضی حکومت میں اسے ریاستی درجہ دے دیا جائے گا۔

لوئیس ریل نے پہلے پہل صوبائی درجے کی بات دریائے سرخ کے رہائشی کمیٹی آف فارٹی کے سامنے 1870 میں پیش کی۔ ریل کی تجویز ڈونلڈ سمتھ تک پہنچائی گئی جو کینیڈا کی حکومت کی طرف سے مقرر تھے۔ اسے جان اے میکڈونلڈ کی حکومت نے مسترد کر دیا۔

ریل کے مطالبات نے کینیڈا کی حکومت کے لیے تازیانے کا کام کیا جس پر انھوں نے دریائے سرخ کے لیے اپنی ایک تجویز پر عمل کیا۔ جان اے میکڈونلڈ نے کینیڈین ہاؤس آف کامنز میں مینی ٹوبا ایکٹ متعارف کرایا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ صوبے یا ریاست کا سوال کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس بل کو منظور کر دیا گیا اور اس طرح مینی ٹوبا کینیڈا میں بطور ایک صوبے کے شامل ہو گیا۔

1870 میں مینی ٹوبا میں اپنی مرضی کی حکومت ٹھونس دینا عقلمندی نہ ہوتا۔ تاہم پارلیمانی حکومت اور صوبے نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھا۔ ونی پگ دار الخلافہ بنا اور کینیڈا کا ایک بڑا شہر بن گیا۔ مینی ٹوبا کی موجودہ مقننہ کی عمارت نئے انداز سے تعمیر کی گئی ہے۔ اس کا مقصد ونی پگ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو جگہ دینا تھا۔ اس کی تعمیر کا مقصد تیس لاکھ شہریوں کو نمائندگی دینا تھا۔

مینی ٹوبا کے موجودہ پریمئر گرے ڈوئر ہیں۔ ان کا تعلق نیو ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہے۔ یہ اپنی تیسری مدت پوری کر رہے ہیں اور ان کی حکومت کے پاس 36 نشستیں ہیں۔ پروگریسو کنزرویٹو کے پاس 19، لبرل (جسے سرکاری طور پر سیاسی جماعت کا رتبہ حاصل نہیں) کے پاس 2 نشستیں ہیں۔ آخری بار انتخابات 22 مئی 2007 میں منعقد ہوئے تھے۔

سرکاری زبانیں

[ترمیم]

انگریزی اور فرانسیسی کو صوبے میں مقننہ اور عدلیہ کے لیے سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔

تاہم 1890 سے اب تک صرف انگریزی کی بڑھتی ہوئی تحاریک کے نتیجے میں عملی طور پر دو زبانیں کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ اپریل 1890 میں ہونے والے فیصلے کے تحت فرانسیسی کو ترک کر دیا گیا تھا۔ دیگر امور کے علاوہ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ قوانین کو فرانسیسی چھوڑ کر صرف انگریزی میں چھاپا جاتا تھا۔ تاہم 1985 میں کینیڈا کی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ انگریزی زبان میں چھپا ہوا قانون غیر آئینی ہے (تاہم مینی ٹوبا کی حکومت کو وقت دیا گیا تاکہ وہ قوانین کا ترجمہ مہیا کر سکے۔ اس دوران اس قانون کو عارضی طور پر چلنے کی اجازت دی گئی تاکہ صوبے میں غیر قانونیت نہ پیدا ہو جائے)۔

اگرچہ فرانسیسی مقننہ، قانون سازی اور عدالتوں میں ایک سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہے، مینی ٹوبا ایکٹ کے تحت حکومت کی ایگزیکٹو برانچ کے مقاصد کے لیے یہ لازم نہیں۔ اس طرح مینی ٹوبا کی حکومت پوری طرح دو لسانی نہیں۔ مکمل طور پر دو لسانی واحد صوبہ نیو برنزوک ہے۔

مینی ٹوبا کی 1999 کی فرانسیسی زبان کی سروس پالیسی کے تحت صوبے کی سرکاری خدمات کو دو لسانی بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ان میں عوامی سہولیات اور صحت کی خدمات، سرکاری کاغذات جیسا کہ پارکنگ کی ٹکٹ اور عدالتی سمن، عدالت اور کمیشن کی سماعت اور حکومتی ویب سائٹس کو دونوں زبانوں میں مہیا کرنا ہے۔

آبادی

[ترمیم]

2001 میں ہونے والی کینیڈا کی مردم شماری کے مطابق مینی ٹوبا میں سب سے بڑا لسانی گروہ انگریز ہیں جو 22٫1 فیصد ہیں۔ ان کے بعد جرمنوں کی تعداد 18٫2 فیصد ہے۔ سکاٹش 17٫7 فیصد ہیں۔ یوکرائنی 14٫3 فیصد، آئرش 13 فیصد، فرانسیسی 12٫6 فیصد، یورپی 9٫9 فیصد، پولش 6٫7 فیصد، مقامی 5٫2 فیصد، ڈچ 4٫7 فیصد اور آئس لینڈک 2 فیصد ہیں۔ تقریباً ایک چوتھائی نے خود کو کینیڈین بھی کہا ہے۔

الحاق سے قبل

[ترمیم]

مینی ٹوبا کی ابتدائی معیشت حرکت اور زمین سے دور رہنے پر منحصر تھی۔ کئی قدیم نسلوں نے جنگلی بھینسوں کا پیچھا جاری رکھا اور تجارت کی نیت سے اکٹھے ہوئے۔ ابتدائی کھال کے تاجر سترہویں صدی میں صوبے میں داخل ہوئے اور انھوں نے مینی ٹوبا کی معیشت کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ پہلی بار یہاں مستقل بنیادوں پر قلعے تمعیر ہوئے اور مختلف آبادیاں وقت کے ساتھ ساتھ جنم لیتی گئیں۔ زیادہ تر معاشی مراکز بی ور اور دیگر جانوروں کی کھالوں سے متعلق تھے۔ مقامی لوگوں کو بطور رہنما اور ان کے نقشوں کو استعمال کر کے تاجروں نے اس علاقے میں اپنا راستہ بنایا۔ اس دور کے بہترین نقشے مقامی لوگوں کی مدد سے تیار کیے گئے جو دریا کے پیچ و خم کو اپنی سرحدوں کے درمیان خوب پہچانتے تھے۔ قدرتی دریا، کھائیاں اور جھیلیں سفر اور تجارت کے اہم راستے تھے۔

معیشت میں پہلی اہم تبدیلی تب آئی جب لارڈ سیلکرک نے کھیتی باڑی کرنے والے افراد کو یہاں ونی پگ کے کے ساتھ شمال کی طرف 1811 میں لا بسایا۔ قابل اعتبار مواصلات اور مقامیوں اور فرانسیسیوں سے ہونے والے جھگڑوں کے باعث اس کی توسیع رکتی رہی۔

آخر کار فتح ہڈسن بے کمپنی کی ہوئی اور اس نے اس سارے علاقے پر اپنا کاروبار پھیلا دیا۔ اس کمپنی کی اجازت کے بغیر اس علاقے میں کسی بھی قسم کی تجارت کا وجود ناممکن تھا۔

ہڈسن بے کمپنی کے ماتحت دریائے سرخ کی کالونی کو ترقی پانے میں کئی سال لگے۔ کمپنی نے اس علاقے میں بنیادی ڈھانچے پر کم ہی رقم خرچ کی۔ یہ مدد بھی تب مہیا کی گئی جب کمپنی کا مقابلہ کرنے کے لیے جیمز سنکلئر اور اینڈریو میکڈرمٹ نے اپنی ذاتی تجارت شروع کر دی۔

1849 میں کمپنی کو اس کی کاروباری اجارہ داری کے لیے سخت خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ کمپنی کو کھالیں مہیا کرنے والے ایک مقامی تاجر بنام گویلاوم سئیر پر الزام لگایا گیا کہ وہ کمپنی کی طرف سے دوسروں کو غیر قانونی طور پر کھالیں مہیا کرتا ہے۔ اس کی تجارت کمپنی کی حدود سے ذرا باہر نارمن کٹسن کے ساتھ تھی۔ اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے قصور وار قرار دیا گیا لیکن اسے جرمانہ یا قید نہیں سنائی گئی۔

1853 میں پورٹیج لا پریری نام سے دوسری زرعی کمیونٹی بنائی گئی۔

اب عدالتوں کو کمپنی کی اجارہ داری کے لیے استعمال کرنا ممکن نہ رہا۔ اس کے نتیجے میں کمپنی کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی اور اس سے مینی ٹوبا کے صوبے داغ بیل پڑی۔

مواصلات

[ترمیم]

مواصلات اور گودام مینی ٹوبا کی معیشت میں 2٫2 ارب ڈالر کا حصہ ڈالتے ہیں۔ اس صنعت میں کل ملازمین کی تعداد 34٫500 ہے۔

مینی ٹوبا میں ٹرین، فضاء، زمینی اور بحری راستے مواصلات کا حصہ ہیں۔

ٹرانس کینیڈا ہائی وے 1950 تا 1971 تک تعمیر ہوئی۔ یہ صوبے کو شرقاً غرباً عبور کرتی ہے۔ مینی ٹوبا کی کل زمینی بار برداری کا 95 فیصد حصہ ٹرکوں سے ہوتا ہے اور کینیڈا سے امریکا سامان کی منتقلی میں ٹرکوں کا حصہ 80 فیصد ہے۔ کینیڈا کی 25 بڑی ٹرکوں کو کرائے پر لینے والی کمپینیوں میں سے 5 مینی ٹوبا میں صدر دفتر رکھتی ہیں اور کینیڈا کی دس بڑی ٹرکوں کی مالک کمپنیوں میں سے تین کے صدر دفاتر ونی پگ میں موجود ہیں۔ مینی ٹوبا کی کل آمدنی میں سے 1٫18 ارب ڈالر کا حصہ ٹرکوں سے آتا ہے۔ کل ملازمین کا 5 فیصد حصہ یعنی 33000 افراد ٹرکوں کی صنعت سے تعلق رکھتے ہیں۔

مینی ٹوبا میں دو اول درجے کی ریلوے ہیں۔ ان کے نام Cn یعنی سی این اور کینیڈین پیسیفک ریلوے ہیں۔ ونی پگ دونوں ریلوے کے نیٹ ورک کے مرکز میں واقع ہے اور دونوں کمپنیوں نے یہاں بڑے ٹرمینل کھولے ہوئے ہیں۔ سی این اور سی پی کے ٹریک کا 2439 کلومیٹر کا حصہ مینی ٹوبا میں سے ہو کر گذرتا ہے۔ مینی ٹوبا سے گذرنے والی پہلی ریلوے سی پی تھی اور پٹری کو موڑ کر ونی پگ تک لایا گیا تاکہ اسے صدر مقام بنایا جا سکے۔

صوبے میں بہت ساری مختصر فاصلے کی پٹڑیاں بھی موجود ہیں۔ ان میں ہڈسن بے ریلوے، دی ساودرن مینی ٹوبا ریلوے، برلنگٹن ناردرن سانٹا فی مینی ٹوبا، گریٹر ونی پگ واٹر ڈسٹرکٹ ریلوے اور سینٹرل مینی ٹوبا ریلوے شامل ہیں۔ مجموعی طور پر یہ صوبے میں 1775 کلومیٹر کا راستہ بناتے ہیں۔

ونی پگ جیمز آرمسٹرانگ رچرڈسن انٹرنیشنل ائیر پورٹ کینیڈا کے معدودے چند ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے جو چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں۔ یہ نیشنل ائیرپورٹ سسٹم سے منسلک ہے۔ یہاں مسافروں اور سامان کے حوالے سے بہت ساری سہولیات موجود ہیں۔ 2007 میں یہاں کل 35 لاکھ مسافر گذرے جبکہ ہوائی اڈے کی اپنی قوت برداشت صرف 6 لاکھ مسافروں کی تھی۔ اس کے علاوہ یہاں کل 140000 ٹن سامان بھی ہینڈل کیا گیا۔ ایک نیا ٹرمینل یہاں ابھی بن رہا ہے اور 2009 تک مکمل ہو جائے گا۔

گیارہ علاقائی مسافر بردار اور نو چھوٹی/ چارٹرڈ مسافر بردار کمپنیاں یہاں کام کرتی ہیں اور گیارہ کارگو اور سات سامان کو آگے بھیجنے والی کمپنیاں بھی یہاں کام کرتی ہیں۔ ونی پگ فیڈ ایکس اور پرولیٹر کا اہم مرکز ہے جہاں ڈاک کو چھانٹا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ روزانہ یو پی ایس کی طرف سے بھی ڈاک وصول کرتا ہے۔ ائیر کینیڈا کارگو اور کارگو جیٹ ائیروئیز اس ہوائی اڈے کو ملکی ٹریفک کے لیے اپنے مرکز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

چرچل کی بندرگاہ، جس کی ملکیت اومنی ٹریکس کے پاس ہے، کینیڈا کی آرکٹک سمندر، روس اور چین کی طرف جانے والی اہم ترین گذرگاہ ہے۔ چرچل کی بندرگاہ بحری طور پر شمالی یورپ اور روس سے کینیڈا کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ قریب ہے۔ یہ بندرگاہ واحد آرکٹک گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے اور شمالی امریکا اور ایشیا کے درمیان مختصر ترین بحری راستہ بھی۔ یہاں چار گہرے سمندر کی برتھیں ہیں جہاں غلہ، عام سامان اور ٹینکر کو لادا اور خالی کیا جا سکتا ہے۔ اس بندرگاہ کو ہڈسن بے ریلوے سے ملایا ہوا ہے (یہ بھی اومنی ٹریکس کی ملکیت ہے ّ)۔ 2004 میں غلہ اس بندرگاہ کی کل ٹریفک کا 90 فیصد تھا۔ اس سال 600000 ٹن زرعی اجناس کوبندرگاہ کی مدد سے بھیجا یا وصول کیا گیا۔ بندرگاہ اور ریلوے کو جلد ہی ترقی دی جا رہی ہے کیونکہ اس مد میں انھیں وفاقی اور صوبائی ٹیکسوں سے کروڑوں ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے۔

فوج

[ترمیم]

کینیڈین فورسز بیس ونی پگ کینیڈا کی افواج کا اڈا ہے جو ونی پگ، مینی ٹوبا میں واقع ہے۔