یونکس کی تاریخ
Evolution of Unix and Unix-like systems | |
ڈویلپر | کین تھامسن, ڈینس رچی, Brian Kernighan, Douglas McIlroy, اور Joe Ossanna at Bell Labs |
---|---|
زبان تحریر | C اور اسمبلی زبان |
آپریٹنگ سسٹم خاندان | یونکس |
فعالی حالت | موجودہ |
سورس ماڈل | Historically ملکیتی سافٹ ویئر, موجودہ کئی یونکس منصوبے (بی ایس ڈی خاندان اور Illumos) are open sourced۔ |
ابتدائی رلیز | 1973 |
دستیاب زبان | انگریزی |
کرنل قسم | Monolithic |
طے شدہ یوزر انٹرفیس | Command-line interface اور گراف صارفی سطح البین (X Window System) |
لائسنس | ملکیتی سافٹ ویئر |
رسمی ویب سائٹ | unix.org |
کمپیوٹنگ کی تاریخ |
---|
ہارڈویئر |
سافٹ ویئر |
کمپیوٹر سائنس |
جدید تصورات |
کمپیوٹنگ کا خط زمانی |
ٰیونکس کی تاریخ ہمیں واپس 1960ء کی دہائی کے وسط میں لے جاتی ہے جب میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، AT&T بیل لیبز اور جنرل الیکٹرک مشترکہ طور پر ایک تجرباتی اور اشتراک زمانی ( time sharing) آپریٹنگ سسٹم جسے ملٹیکس (Multics) کہا جاتا ہے، GE-645 فریم کے لیے تیار کر رہے تھے۔[1] ملٹکس نے کئی اختراعات متعارف کروائیں، لیکن ان میں بہت سے مسائل تھے۔
بیل لیبز، ملٹکس کے سائز اور پیچیدگیوں سے مایوس ہو چکے تھے، وہ آہستہ آہستہ اس منصوبے سے الگ ہو گئے۔ ملٹکس کو چھوڑنے والے ان کے آخری محققین کین تھامسن، ڈینس رچی، ڈوگ McIlroy اور Joe Ossanna نے دوسروں کے ساتھ[2] ایک بہت چھوٹے پیمانے پر دوبارہ کام کرنے کا ارادہ کیا۔[3] 1979 میں ڈینس رچی نے یونیکس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر پیش کیا:[3]
1969
[ترمیم]1969 کے آخر میں، بیل لیبز ایم ائی ٹی اور جنرل الیکٹرک کے ساتھ وقت کا اشتراک کرنے کا نظام تیارکرنے کے منصوبے پر کام کر رہا تھا، جسے ملٹی پلیکسڈ انفارمیشن اینڈ کمپیوٹنگ سروس (Multics) کہا جاتاہے، جو ایک سے زیادہ صارفین کو ایک ہی وقت میں مین فریم تک رسائی کی اجازت دیتا ۔ منصوبے کی ترقی سے غیر مطمئن ہوکر، بیل لیبز کی انتظامیہ بالآخر منصوبے سے الگ ہو گئی۔
کین تھامسن، ایک پروگرامر نے لیبز' کمپیوٹنگ تحقیق کے شعبہ میں لٹکس پر کام کیا تھا۔ انھوں نے اپنا آپریٹنگ سسٹم لکھنے کا فیصلہ کیا۔ جبکہ اسے اب بھی ملٹکس تک رسائی حاصل کی تھی، انھوں نے نئے فائل اور پیجنگ کے نظام کے لیے مجازی لکھا[وضاحت کی ضرورت ہے]۔ انھوں نے خلائی سفر نامی ایک کھیل کو پروگرام کیا، لیکن اس کو چلانے کے لیے زیادہ موثر اور کم مہنگی مشین کی ضرورت تھی اور آخر میں انھیں ایک چھوٹا سا پی ڈی پی-7 بیل لیبزمیں ملا۔[4][5] پی ڈی پی-7 پر، 1969 میں، بیل لیبز کے محققین کی ایک جماعت نے جس کی قیادت تھامسن اور رچی سمیت رُڈ کینیڈے(Rudd Canaday) کر رہے تھے، نظام مراتب کے مطابق فائل سسٹم ( hierarchical file system) ، کمپیوٹر کے عمل( computer processes) اور آلہ کی فائلوں ( device files) کے تصورات، ایک کمانڈ لائن کے ترجمان ( command-line interpreter) اور کچھ چھوٹے مفید پروگراموں کو تیار کیا۔[3] اس کے نتیجے میں، یونیکس نظام بن گیا تھا، جو ملٹکس کے تصور کیے گئے نظام سے بہت چھوٹا تھا۔ ایک ماہ کے وقت کے بعد، تھامسن نے، ایک خودکار ہوسٹنگ آپریٹنگ سسٹم (self-hosting operating system) کو ایک اسمبلر، ایڈیٹر اور شیل، GECOS مشین کا استعمال کرتے ہوئے bootstrapping کے لیے لاگو کیا۔[6]
1970ء
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ Brian L. Stuart (2009)۔ Principles of operating systems: design & applications۔ Boston, Massachusetts: Thompson Learning۔ صفحہ: 23۔ ISBN 1-4188-3769-5
- ↑ "In the Beginning: Unix at Bell Labs"
- ^ ا ب پ Dennis M. Ritchie (1984)۔ "The Evolution of the Unix Time-sharing System"۔ AT&T Bell Laboratories Technical Journal۔ 63 (6 Part ء2): 1577–93۔ 08 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "The Creation of the UNIX* Operating System: The famous PDP-7 comes to the rescue"۔ Bell-labs.com۔ 02 اپریل 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2015
- ↑ "The History of Unix"۔ BYTE۔ August 1983۔ صفحہ: 188۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جنوری 2015
- ↑ Peter H. Salus (2005)۔ The Daemon, the Gnu and the Penguin۔ Groklaw۔ 25 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اگست 2016