شیشہ
شیشہ یا کانچ ( Glass) بہت ساری مختلف چیزوں سے بنایا جا سکتا ہے۔ یہ شیشے دیکھنے میں تقریباً ایک جیسے لگتے ہیں مگر ان کی خاصیتوں میں کچھ فرق ہوتا ہے۔
شیشے کے برتنوں کو اکثر crystal ware کہا جاتا ہے مگر یہ شیشہ قلمی (crystaline) حالت میں نہیں ہوتا۔ قلمی شیشہ quartz کہلاتا ہے اور قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔کوارٹز میں اکثرسونے کے ذرات بھی موجود ہوتے ہیں۔
خام اشیاء
[ترمیم]- اگر شیشہ ریت (سلیکون ڈائ آکسائڈ SiO2) کو پگھلا کر بنایا جائے تو اسے fused quartz کہتے ہیں۔ ریت 2300 ڈگری سنٹی گریڈ سے بھی زیادہ درجہ حرارت پر پگھلتی ہے اور اتنا بلند درجہ حرارت حاصل کرنا مشکل اور مہنگا پڑتا ہے۔
- اگر ریت میں دھوبی سوڈا (سوڈیم کاربونیٹ یا پوٹاشیم کاربونیٹ) ملا کر آمیزے کو گرم کیا جائے تو یہ 1500 ڈگری سنٹی گریڈ پر پگھل کر soda glass بنا دیتا ہے مگر اس طرح بننے والا شیشہ پانی میں حل ہو جاتا ہے۔ ایسے شیشے کو واٹر گلاس یا liquid glass بھی کہتے ہیں۔( ایسے آمیزے جو جلدی پگھل جایئں ایوٹیکٹک کہلاتے ہیں)۔
- اگر اس ریت اور سوڈے کے آمیزے میں ان بجھا چونا ( کیلشیم آکسائڈ CaO۔ لائم) بھی ملا دیا جائے تو وہی شیشہ بن جاتا ہے جو عام استعمال میں نظر آتا ہے اور جو پانی میں حل نہیں ہوتا۔ اگر اس آمیزے میں ٹوٹے ہوئے کانچ کے ٹکڑے ملا دیے جائیں تو یہ آمیزہ اور جلدی پگھل جاتا ہے جس سے ایندھن کی بچت ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں بننے والے شیشے کا 90 فیصد یہی سوڈا لائم گلاس ہوتا ہے۔ یہ گلاس برتن بوتلیں کھڑکی دروازے آئینے عدسے ٹی وی اسکرین اور دوسری بے شمار چیزیں بنانے میں کام آتا ہے۔
گلاس برتن بوتلیں وغیرہ شیشے کو سانچے میں ڈھال کر بنا ئی جاتی ہیں۔ لیکن کھڑکی دروازوں میں لگنے والے شیشے کسی سانچے میں ڈھال کر نہیں بنائے جاتے بلکہ اس مقصد کے لیے پگھلے ہوئے شیشے کو پگھلی ہوئی دھات مثلا ٹن tin پر تیرنے دیا جاتا ہے۔ ٹھنڈا ہونے پر گلاس شیٹ تیار ہو جاتی ہے۔ گرم سرخ شیشے کو بیلن (رولر) کے درمیان سے گزار کر بھی گلاس شیٹ بنائی جا سکتی ہے۔
اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو atm 400,000 کے دباؤ کے تحت ٹھنڈا کیا جائے تو یہ بھی شیشے میں تبدیل ہو جاتی ہے جسے carbonia کہتے ہیں۔ دباؤ ہٹتے ہی یہ شیشہ پھر گیس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔[1]
تاریخ
[ترمیم]سرد آتش فشاں کے دھانے میں پایا جانے والہ قدرتی شیشہ جسے obsidian کہتے ہیں پتھر کے زمانے میں بھی انسان کے زیر استعمال رہا ہے۔ انسان اس زمانے میں اس کی تیز دھار کو کاٹنے کے اوزار کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ چونکہ یہ ہر جگہ دستیاب نہیں تھا اس لیے اس کی تجارت بھی ہوتی تھی۔
سب سے پہلے انسان نے لگ بھگ 2500 سال قبل از مسیح میں عراق، شام یا مصر میں شیشہ ایجاد کیا۔ اس کام کے لیے ریت باآسانی دستیاب تھی۔ سفید پتھر (کیلشیم کاربونیٹ) کو گرم کر کے چونا حاصل ہوتا ہے۔ جلے ہوئے درختوں کی راکھ کو پانی میں حل کر کے سوڈا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور انھی تین چیزوں سے شیشہ بنتا ہے۔ لیکن صدیوں تک شیشہ سازی کا فن ایک راز رہا جس کی انتہائی حفاظت کی جاتی تھی اور جو صرف سینہ بہ سینہ اگلی نسل کو منتقل ہوتا تھا۔ دور دراز کے جن علاقوں میں شیشے کی بنی ہوئی اشیاء کی تجارت کرنا ممکن نہ تھا وہاں خام شیشے کے ڈلے (ingots) بھیجے جاتے تھے جن سے شیشے کی مصنوعات مقامی سطح پر بنا لی جاتیں تھیں لیکن شیشہ سازی کا بنیادی فن کسی کو نہیں سکھایا جاتا تھا۔
شیشے کے رنگ
[ترمیم]عام استعمال ہونے والے نامیاتی organic رنگ شیشہ کو رنگین بنانے کے لیے استعمال نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ بھٹی کے درجہ حرارت پر تحلیل ہو جاتے ہیں۔ مختلف دھاتوں کی موجودگی سے شیشے میں مختلف رنگ آ جاتے ہیں۔ مثلاً لوہے کی کثافتوں سے شیشہ میں ہلکا سا ہرا رنگ آ جاتا ہے جو موٹے شیشوں میں نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ ہرا پن دور کرنے کے لیے شیشے میں manganese dioxide ملایا جاتا ہے۔ اگر لوہے کی مقدار زیادہ ہو اور کرومیم بھی موجود ہو تو شیشے کا رنگ گہرا ہرا ہو جاتا ہے۔ لوہے اور گندھک کی موجودگی سے شیشے میں ہلکے پیلے سے لے کر گہرے بھورے تک رنگ آ جاتے ہیں۔ یورینیم ملی مٹی دو ہزار سال سے شیشے کو ہرا مائل پیلا رنگ دینے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ سونے کی موجودگی سے شیشے کا رنگ گہرا سرخ ہو جاتا ہے۔
کوبالٹ کی موجودگی سے شیشے کا رنگ نیلا ہو جاتا ہے۔
9 فیصد نکل آکسائڈ کی موجودگی سے شیشے کا رنگ گہرا بنفشی نیلا ہو جاتا ہے جس میں سے نظر آنے والی روشنی نہیں گذر سکتی مگر الٹروائلیٹ (بالائے بنفشی) اور انفرا ریڈ گذر سکتی ہیں۔ یہ شیشہ Wood's glass کہلاتا ہے اور الٹروائلیٹ ٹیوب لائٹ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ ایسی ٹیوب لائٹ جراثیم مارنے یا جعلی نوٹ شناخت کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
ایسے شیشے جن میں لوہا موجود ہو وہ حرارت infrared جذب کرتے ہیں جبکہ cerium oxide کی ملاوٹ والا شیشہ بالائے بنفشی ultraviolet شعاؤں کو جذب کرتا ہے جو جانداروں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔
بورو سلیکیٹ گلاس
[ترمیم]اس قسم کے شیشے میں 76 فیصد ریت، 13 فیصد بورک آکسائیڈ اورباقی ایلومینم آکسائیڈ اور سوڈیئم آکسائیڈ ہوتا ہے۔ بورک آکسائیڈ (B2O3) کی موجودگی کی وجہ سے ایسا شیشہ بلند تر درجہ حرارت برداشت کر لیتا ہے، گرم کرنے پر کم پھیلتا ہے اور تیزاب سے کم متاثر ہوتا ہے۔ جو شیشے گرم کرنے پر زیادہ پھیلتے ہیں اُن کے تڑک جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ماضی میں کورننگ کمپنی کے Pyrex برانڈ کی اشیاء بوروسلیکیٹ شیشہ سے بنائی جاتی تھیں لیکن اب یہ ٹیمپرڈ شیشے سے بنائی جاتی ہیں۔
تجربہ گاہ میں استعمال ہونے والے شیشے کے برتن بوروسلیکیٹ شیشے سے بنے ہوئے ہوتے ہیں اور براہ راست شعلے کی آنچ برداشت کر لیتے ہیں جبکہ عام شیشہ شعلے پر تڑک جاتا ہے۔
کیلیفورنیا کی رصد گاہ (Palomar Observatory) کی دوربین میں استعمال ہونے والا 200 انچ قطر کا 14.5ٹن وزنی آئینہ بوروسلیکیٹ شیشے سے ہی بنایا گیا تھا تاکہ گرمی سردی کی وجہ سے دوربین کی تصویر لینے کی صلاحیت متاثر نہ ہو۔ ڈھلائی کے بعد اسے آہستہ آہستہ ٹھنڈا کرنے میں ایک سال لگ گیا تھا۔1948ء سے 1976ء تک یہ دنیا کی سب سے بڑی بصری دوربین تھی اور اب تک زیر استعمال ہے۔
اینیلینگ (Annealing)
[ترمیم]اگر شیشہ بھٹی سے نکلنے کے بعد تیزی سے ٹھنڈا ہو تو اس کے اندر کھچاؤ (stresses) باقی رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے ایسا شیشہ معمولی سی چوٹ لگنے یا گرم یا سرد ہونے پر ٹوٹ جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا شیشہ بغیر کسی چوٹ کے خود بخود ٹوٹ جاتا ہے۔ شیشے میں سے یہ خامی ختم کرنے کے لیے شیشے کو اینیلنگ ٹمپریچر تک دوبارہ گرم کیا جاتا ہے، کچھ دیر تک اسی ٹمپریچر پر رکھا جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہونے دیا جاتا ہے۔ اکثر شیشوں کا اینیلنگ ٹمپریچر454 - 482 °C ہوتا ہے۔ اس ٹمپریچر پر شیشہ اگرچہ ٹھوس ہی ہوتا ہے مگر اس کے اندر ایٹم اپنی جگہ تبدیل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے اندرونی کھچاو کی قوتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ ایسا شیشہ کئی گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
شیشہ جتنا زیادہ موٹا ہوتا ہے اسے اینیلینگ کے لیے اتنی ہی زیادہ دیر تک اینیلنگ ٹمپریچر پر گرم رکھنا پڑتا ہے۔
اینیلنگ ٹمپریچر کو stress-relief point یا annealing point بھی کہتے ہیں۔