شاہ محب اللہ الہ آبادی
شاہ محب اللہ الہ آبادی متوفی 1058ھ / 1648ء عہد شاہ جہانی کے سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے نامور مشائخ میں سے ہیں۔
آپ کا وطن اصلی صدر پور تھا - علوم ظاہریہ کی تکمیل کے بعد جب علوم حقیقت کے مشتاق ہوئے تو دہلی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے مزار پر حاضر ہوکر مراقب ہوئے، حضرت نے ارشاد فرمایا کہ سلسلہ صابریہ میں آج کل شیخ ابوسعید گنگوہی ؒ کے یہاں بازار تکمیل گرم ہے وہاں جاؤں اس بنا پر گنگوہ حاضر ہوئے اور بیعت ہوئے -
شاہ محب اللہ الہ آبادی حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کی اولاد سے ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ 1 ،شیخ محب اللہؒ 2، ابن شیخ مبارزؒ 3، ابن شیخ پیرؒ 4، ابن شیخ بڑےؒ 5، ابن شیخ مٹھےؒ 6، ابن شیخ رضی الدینؒ 7،ابن شیخ اوحد الدینؒ 8، ابن قاضی شیخ امجد الدین فیاضؒ 9، ابن حاجی قاضی جمیل الدینؒ 10، ابن قاضی رفیع الدینؒ 11، ابن شیخ محب اللہ فیاضؒ 12، ابن حاجی شیخ رستم اللہؒ 13، ابن شیخ حبیب اللہؒ 14،ابن حاجی شیخ ابراہیمؒ 15، ابن قاضی شیخ علاءالدین فیاضؒ 16، ابن شیخ امام قاسمؒ 17، ابن قاضی شیخ عبد الرزاقؒ 18، ابن جامع العلوم شیخ عبد القادرؒ 19، ابن حاجی شیخ ابل الفتحؒ 20،ابن شیخ عبد السلامؒ 21، ابن شیخ خضر فیاضؒ 22،ابن شیخ شہاب الدین گنج علمؒ 23، ابن حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ .[1]
شاہی مسجد الہ آباد
[ترمیم]شاہی مسجد جب شاہ محب اللہ الہ آبادی کے وصال کی خبر اخبارنویس کے ذریعہ داراشکوہ و وزیر اعظم نواب سعد اللہ خاں کو ہوئی تو بہت افسوس کے بعد فکر میں پڑے کہ شاہ محب اؒللہ متوکل ولی اللہ تھے ان کے اہل و عیال کو اور دیگر متعلقین کی کفالت کا انتظام ہونا چاہیے اور شاندار مقبرہ تعمیر ہونا چاہیے چنانچہ شاہ محب اللہ الہ آبادیؒ کے صاحبزادے شیخ تاج الدینؒ کے نام فرمان شاہی لکھواکر حاکم الہ آباد کو بھیج دیا اور حکم دیا کہ تمام سامان تعمیر مقبرہ جمع ہو اور شاہ محمد دلربا کو لکھا کہ پہلے شاہ صاحب سے مکاشفات کے ذریعہ تعمیر مقبرہ کی اجازت حاصل کریں اور ان کی مرضی کہ موافق عمل کریں۔ حضرت دلرباؒشاہ صاحب نے ویسا ہی عمل کیا۔ حضرت شاہ محب اللہ الہ آبادیؒ نے اس طرح جواب دیا کہ فقیر کو نمود اور آرائش ظاہری کی ضرورت نہیں ہے۔ قدرتی سایہ کافی ہے کہیں کوئی مسجد بنادو جس کے بنانے سے تم کو اور شہزادے کو اور عبادت کرنے والوں کو قیامت تک ثواب ملتا رہے۔ صرف تعمیر مقبرہ اسراف بیجا ہے اور یہ اللہ جل شانہٗ کے نزدیک مقبول نہیں ہے۔ مقام تعمیر مسجد دریافت کرنے پر وہ جگہ بتائی جہاں پر موجودہ مسجد ہے۔ داراشکوہ کو اطلاع دی گئی اور ان کی اجازت کے بعد بنیاد تعمیر مسجد بنی اور پانچ سال عرصہ میں بڑی مسجد سنگی بن کر تیار ہوئی اب وہ مقام مسجد محلّہ بہادرگنج دائرہ شاہ محب اللہ میں ہے۔ مسجد کہ جنوب اولاد ذکور شاہ محب اللہ الہ آبادیؒ کی بودوباش ہے۔ مسجد نہایت وسیع و بلند اور خوبصورت رنگ آمیزیوں سے گلدستہ کی طرح آراستہ ہے قطعہ تاریخ تعمیر سہ برجی مسجد کے اندرونی محرابوں پر شمال سے جنوب کے جانب ابھرتے ہوئے حرفوں سے کندہ کی ہوئی ہیں۔ اشعار اس کے ایسے ہیں جس سے احوال معروضہ کی تصدیق ہوتی ہے اور مسجد عارف خدا آمد سے ایک ہزار ترسٹھ ہجری سال تعمیر نکلتا ہے۔ معتبر روایت یہ ہے کہ تعمیر مسجد کہ بعد سب سے پہلے حضرت دلربا شاہؒ صاحب نے اذان دی اور انھیں کی اقتداء میں نماز ہوئی۔ ایک عرصہ تک آپ نے امامت کی آپ کہ وصال کے بعد نبیرۂ شاہ محب اللہ الہ آبادیؒ شاہ محمد سیف اللہؒ سجادہ نشین اول نے بار امامت اٹھایا اُس وقت سے آج تک سجادہ نشینان ہی امامت کرتے چلے آ رہے ہیں۔
تالیفات
[ترمیم]خانقاہ حضرت شاہ محب اللہ الہ آبادی
عربی میں فصوص الحکم کی شرح لکھی اور 1041ھ / 1631ء میں فارسی زبان میں اس کی دوسری شرح لکھی اور عبد الرحیم خیر آبادی، جو ان کے مکتوب الیہ بھی تھے، کی وساطت سے اس کا ایک نسخہ دارا شکوہ کو بھیجا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ہفت احکام اور مناظر اخص الخواص 1050ھ / 1640ء میں مرتب کی اور 1053ھ / 1643ء میں عباد ت الخواص، تفسیر القرآن، المغالطۃ العامہ، تسویہ اور عقائد الخواص وغیرہ قابل ذکر رسائل لکھے۔[4]
شاہ محب اللہ الہ آبادی کے مکتوبات کا ضخیم مجموعہ بھی مرتب ہوا تھا۔ اس میں تمام تر خطوط کا موضوع وحدت الوجود ہے۔ اس مجموعہ میں دارا شکوہ کے نام ان کے طویل مکتوبات موجود ہیں۔ مکتوبات کے نسخہ علی گڑھ میں دارا شکوہ کے نام جو مکتوبات ہیں وہ 46 صفحات کو محیط ہیں۔[5]
دارا شکوہ نے جس طرح صوفیاء کی خدمت میں تصوف سے متعلق سوالات ارسال کر کے ان سے جوابات طلب کیے اسی طرح اس کا ایک سوالنامہ بنام شاہ محب اللہ الہ آبادی بھی موجود ہے۔[6]
خلفاء
[ترمیم]آپ کے مشہور خلفاء کے نام یہ ہیں۔ 1۔ شیخ تاج الدین 2۔ قاضی صدر الدین گھاسی 3۔ شیخ محمدی فیاض 4۔ قاضی یوسف 5۔ قاضی عبد الراشد 6۔محسن فانی کشمیری 7۔شیخ احمد 8 شیخ کبیر قنوجی 9۔شاہ محمد دلربا [7]
تصانیف
[ترمیم]کتب تذکرہ سے شاہ محب اللہ ؒ کی جن کتابوں کا پتہ چلتا ہے وہ درج ذیل ہیں۔ (1) ترجمعۃ الکتاب (عربی) ایک جلد خانقاہ میں موجود ہے (2) شرح فصوص الحکم (عربی) 2 جلد خانقاہ میں موجود ہے (3) شرح فصوص الحکم (فارسی) 1جلد موجود ہے (4) مناظراخص الخواص (فارسی) 4 جلد خانقاہ میں موجود ہے (5) انفاس الخواص (عربی) 2 جلد خانقاہ میں موجود ہے (6) :عقائدالخواص (عربی) 3 جلد خانقاہ میں موجود ہے (7) غایت الغایات (فارسی) 1 جلد خانقاہ میں موجود ہے (8) ہفت احکام (فارسی) 3 جلد خانقاہ میں موجود ہے (9) رسالہ تسویہ (عربی) ایک جلد موجود ہے۔اردو ترجمہ کے ساتھ خانقاہ سے شائع ہو چکی ہے (10) شرح تسویہ (فارسی) 1 جلد موجود ہے (11) عبادت الخواص (فارسی) ایک جلد موجود ہے (12) اورداوراد محبی (فارسی) 3جلد موجود ہے (13) مجموعہ مکتوبات (فارسی) 3جلد موجود ہے (14) رسالہ توحید کلمۃ التوحید (فارسی) ایک جلد خانقاہ میں موجود ہے (15) رسالہ سیر اللہی (فارسی) ایک جلد موجود ہے بقول ایک ایرانی (16) رسالہ وجود مطلق (فارسی) ایک طویل خط ہے جو شیخ عبد الرحیم مانک پوری کو لکھا گیا تھا اور اس کو نہیں بھیجا جا سکا۔
وہ کتابیں جو خانقاہ میں موجود نہیں ہیں۔ (1) حاشیہ ترجمعۃ الکتاب (عربی) (2) طرق الخواص (فارسی (3) امالۃ القلوب (فارسی) (4) مفالیط عامہ (عربی) (5) سر الخواص (فارسی) (6) کتاب المبین (عربی) (7) مراتب وجود (فارسی) (8) رسالہ اعانۃ الاخوان (فارسی) (9) مونس العارفین (فارسی) [8]
متصوفانہ رجحان
[ترمیم]شاہ محب اللہ الہ آبادی نے اپنی تعلیمات کی بنیاد شیخ محی الدین ابن عربی کے افکار پر رکھی۔ وہ شیخ محی الدین ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کے اس قدر حامی و مبلغ تھے کہ وہ اس میں اجتہاد کے درجہ کو پہنچ گئے تھے۔ انھوں نے وحدت الوجود کے افکار کو ہندوستانی مزاج کے مطابق اس طرح بیان کیا کہ وحدت ادیان کی مثالوں کے متلاشی افراد کو ان میں بہت سا مواد مل گیا۔[9]
رسالہ تسویہ
[ترمیم]شاہ محب اللہ الہ آبادی کے رسالہ تسویہ نے اس وقت کی ذہنی فضا مکدر اور مذہبی زندگی میں ہلچل مچادی۔ اس رسالہ میں انھوں نے آنحضرت پر نزول وحی کے بارے میں ایسی بحث کی تھی کہ جو علماء کے نزدیک قابل اعتراض تھی۔ اس رسالہ کے خلاف باقاعدہ کارروائی تو ان کی وفات کے بعد اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں ہوئی لیکن معاصر مآخذ معارج الولایت کے ایک اندراج سے معلام ہوتا ہے کہ ان کے حین حیات بھی ان کے نظریات کے خلاف شورش برپا ہوئی تھی اور وہ اس قدر شدید تھی کہ عوام ان کے قتل کے درپے ہو گئے تھے جب شیخ محمد رشید جونپوری کو معلوم ہوا تو وہ برق رفتاری سے جونپور سے آئے اور انھیں عوام کے نرغے سے بچایا اور ان کے کلام کی توجیہ کر کے عوام کے جذبات فرو کیے۔[10]
اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں راسخ العقیدہ علما کی درخواست پر اورنگزیب عالمگیر نے ان کے رسالہ تسویہ کے تمام نسخے جلانے کا حکم صادر کیا بلکہ خود اس کا مطالعہ کیا تو شاہ صاحب کے تمام مریدوں کو دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا لیکن شاید یہ عملی طور پر ممکن نہ تھا لہذا ان کے صرف دو خلفاء میر سید محمد قنوجی اور شیخ محمدی کے حاضر ہونے کا ذکر ملتا ہے۔[11]
حضرت خواجہ باقی باللہ کے صاحبزادے خواجہ خرد نے اس رسالہ کی تردیدی شرح عہد عالمگیری میں ہی لکھی۔
اس رسلہ کی کئی اور شرحیں بھی لکھی گئیں۔ خود شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی نے بھی اسی کی ایک شرح لکھی۔ سلسلہ قلندریہ کے اصحاب نے بھی اس کی ایک ضخیم شرح طبع کروائی تھی۔
شاہ محب اللہ الہ آبادی اپنے مکتوبات میں اس رسالہ کو عام کرنے سے اپنے خلفاء کو منع کرتے رہے کہ اسے اپنے تک محدود رکھیں اور اغیار کو نہ دکھائیں لیکن اس دور کی فضا ہی کچھ ایسی تھی کہ اس قسم کے لٹریچر کا تقاضا کیا جانے لگا تھا۔ اس لیے ان کے مرید اس کے پابند نہ رہ سکے۔[12]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ Annemarie Schimmel۔ Islam in the Indian Subcontinent۔ BRILL۔ صفحہ: 98۔ ISBN 90-04-06117-7, Published in 1980, now on Google Books, Retrieved 1 November 2018
- ↑ تاریخ مشائخ چشت, مصنف شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمه الله http://www.elmedeen.com/read-book-5168&&page=240&viewer=text#page-228&viewer-text آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ elmedeen.com (Error: unknown archive URL)
- ↑ حیات شیخ الکبیر، اردو ترجمہ حبیب احمد صابری ص8
- ↑ تاریخی مقالات، پروفیسر خلیق احمد نظامی، دہلی 1966ء ص48
- ↑ تاریخی مقالات ،پروفیسر خلیق احمد نظامی، دہلی 1966ء ص51
- ↑ رقعات عالمگیر، مرتبہ، نجیب اشرف ندوی طبع دارالمصنفین، ص29
- ↑ مرآة الاسرار، عبد الرحمن چشتی، ص32
- ↑ بحر زخار خانقاہ حضرت شاہ محب اللہ الہ آبادی ص35
- ↑ حسنات الحرمین، اردو ترجمہ محمد اقبال مجددی ص81
- ↑ معارج الولایت، عبد اللہ خویشگی عبد ی، قلمی نسخہ، ذخیرہ آزر کتب خانہ دانش گاہ پنجاب نمبر5 ورق32
- ↑ مراۃ الخیال، شیر خان لودھی، ص228-229
- ↑ حسنات الحرمین، اردو ترجمہ محمد اقبال مجددی ص82
https://www.qutubeallahabad.com/آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ qutubeallahabad.com (Error: unknown archive URL)