خارجہ بن زید بن ثابت
خارجہ بن زید بن ثابت | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 650ء (عمر 1373–1374 سال) |
مدفن | جنت البقیع |
رکن | فقہائے سبعہ |
درستی - ترمیم |
سات فقہائے مدینہ |
|
خارِجہ بن زيد: ولادت (29ھ -650ء وفات 99ھ- 717ء)
نام و نسب
[ترمیم]خارجہ نام،ابوزید کنیت، مشہور صحابی زید بن ثابتؓ کے صاحبزادے ہیں،نسب نامہ یہ ہے، خارجہ بن زید بن ثابت بن ضحاک بن زید بن لوذان بن عمرو بن عبد مناف بن مالک بن امرا القیس بن مالک بن ثعلبہ خزرجی۔، والد معروف صحابی زید بن ثابت جو نقبائے مدینہ تھے قبیلہ بنی نجار سے تعلق تھا اس لیے نجاری بھی کہلاتے تھے مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ میں سے ایک ہیں یہ تابعی ہیں عثمان غنی کے دور خلافت میں رہے مدینہ منورہ میں وفات پائی ۔[1] ان کا شمار مدینہ کے مشہور فقہائے سبعہ میں ہوتا تھا۔ یہ ساتوں فقہا مدینہ میں مقیم تھے، یہ ہم عصر تھے اور انھی کے ذریعے سے فتوے اور فقہ کا علم پھیلا۔
فضل وکمال
[ترمیم]خارجہ کے والد حضرت زید بن ثابت علمائے صحابہ میں تھے، خصوصاً حفظ قرآن میں جماعت صحابہ میں ممتاز تھے،کلام اللہ انہی کی زیر نگرانی مدون ہوا تھا، خارجہ نے اسی آغوشِ علم میں پرورش پائی تھی، باپ کے فیض تعلیم سے ان کا شمار ان کے عہد کے کبار علما میں ہو گیا تھا، حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ کبار علما میں تھے،امام نووی لکھتے ہیں کہ وہ علم میں امام بارع تھے اوران کی توثیق وجلالت پر سب کا اتفاق ہے۔ [2]
حدیث
[ترمیم]حدیث میں انھوں نے اپنے والد زید،اپنے چچا یزید،اسامہؓ بن زید،سہل بن سعد، عبد الرحمن ابن ابی عمرہ سے سماع حدیث کیا تھا، خود ان سے روایت کرنے والوں میں ان کے لڑکے سلیمان،بھتیجے سعید اور قیس بن سعد اورعام لوگوں میں عبد اللہ بن عمرو بن عثمان مطلب عبد اللہ اور یزید ابن قسیط وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ [3]
فقہ
[ترمیم]فقہ ان کا امتیازی فن تھا، اس میں وہ امامت اوراجتہاد کا درجہ رکھتے تھے ؛چنانچہ مدینہ کے ساتھ مشہور فقہا میں ایک ان کا نام بھی تھا۔ [4]
فرائض
[ترمیم]حضرت زید بن ثابت فرائض کے بھی بڑے عالم تھے،اس لیے خارجہ کو یہ دولت گویا وراثۃً ملی تھی؛چنانچہ علمائے مدینہ میں وہ اورطلحہ بن عبد اللہ بن عوف میراث تقسیم کرتے تھے اور تقسیم کے وثیقے لکھتے تھے اوراس میں ان کا قول سند مانا جاتا تھا۔ [5]
درویش منش
[ترمیم]خارجہ بن زید اپنے والد زید بن ثابت کی طرح مسائل وراثت کے ماہر تھے۔ مدینہ کے لوگ خارجہ اور طلحہ بن عبد اﷲ بن عوف کے پاس اپنے گھروں،مال مویشی اور کھجوروں کے باغات کی تقسیم کے مسائل لاتے۔ یہ دونوں ان مسئلوں میں لوگوں کی عملی رہنمائی کرتے،اہل مدینہ کو ان کے فیصلوں پربھروسا ہوتا۔ لوگ ان سے اپنی قانونی تحریریں اور وثیقے بھی لکھواتے۔ خارجہ درویش منش تھے ،اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے انھیں کچھ مال بھیجاتو انھوں نے پاس رکھنے کی بجائے اسے بانٹ دیا۔ ایک موقع پر حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمان جاری کیا: خارجہ کا بیت المال سے روکاجانے والا حصہ انھیں دے دیا جائے۔ خارجہ ابو بکر بن حزم کے پاس گئے اورکہا: میں نہیں چاہتاکہ امیرالمومنین پر اس وجہ سے کوئی حرف آئے، کیونکہ میری طرح اور بھی لوگ ہیں( جن کا نام بیت المال کے رجسٹر سے کاٹا گیا ہے)۔ اگر امیر المومنین اس فرمان میں ان کو بھی شامل کر لیں تو میں عطیہ قبول کروں گا، لیکن اگر وہ یہ نوازش خاص مجھ پر کریں گے تو مجھے یہ اچھا نہ لگے گا۔ عمر نے جواب لکھا: بیت المال اس قدر عطیوں کی گنجایش نہیں رکھتا، اگر اس میں اتنی وسعت ہوتی تو میں کر گزرتا۔
وفات
[ترمیم]خارجہ کی وفات 99ھ میں مدینہ ہی میں ہوئی۔ مرنے سے پہلے انھوں نے خواب دیکھا کہ وہ 70 سیڑھیاں چڑھ چکے ہیں اور پھر نیچے لڑھک گئے ،اتنی ہی ان کی عمر ہوئی۔ ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے ان کا جنازہ پڑھایا۔ رجا بن حیوہ نے عمر بن عبد العزیز کوخارجہ بن زید کی وفات کی خبر دی، انھوں نے انا ﷲ وانا الیہ رٰجعون پڑھا ،افسوس سے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور فرمایا: بخدا،اسلام میں شگاف پڑ گیا ہے۔[6]
حلیہ اورلباس
[ترمیم]خارجہ کا جسم نہایت سڈول اورخوبصورت تھا، خز کی چادر اوڑھتے تھے،سپید عمامہ باندھتے تھے اوربائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔ [7]
اولاد
[ترمیم]وفات کے بعد متعدد اولادیں یادگار چھوڑیں ،لڑکوں میں زید، عمر، عبد اللہ،محمد اورلڑکیوں میں جیبہ،حمیدہ،ام یحییٰ اورام سلیمان تھیں اور یہ سب اولادیں ام عمر وبنت حزم کے بطن سے تھیں۔ [8]