قصور
ملک | پاکستان |
---|---|
صوبہ | پنجاب |
ضلع | قصور |
رقبہ | |
• کل | 3,995 کلومیٹر2 (1,542 میل مربع) |
بلندی | 218 میل (715 فٹ) |
آبادی (2020)[1] | |
• کل | 382,000 |
• کثافت | 595/کلومیٹر2 (1,540/میل مربع) |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
کالنگ کوڈ | 049 |
ویب سائٹ | قصور |
قصور شہر صوبہ پنجاب پاکستان کا ایک قدیم ضلع قصور کا مرکزی شہر اور ضلعی دارالحکومت ہے، ضلع کا درجہ حاصل کرنے سے پہلے یہ لاہور کی ایک تحصیل تھی، انگریز حکومت نے قصور کو 1867ء میں میونسپلٹی کا درجہ دیا، یکم جولائی 1976ء کو ضلع لاہور سے تحصیل قصور کو علاحدہ کر کے ضلع کادرجہ دے دیا گیا، جو لاہور سے جنوب کی طرف 55 کلومیٹر دور واقع ہے، سطح سمندر سے اس کی اوسط بلندی 218 میٹر ہے۔
قصور کا ماضی شاندار ہے، یہ مذہبی، ثقافتی اور روحانی روایات کا امین ہے، یہ شہر ہماری ملی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جس نے اسلامی تہذیب وتمدن اور مسلم ثقافت کی ترقی اور اس کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
قصور کی تاریخ لاہور کے مقابلے میں اتنی پرانی نہیں ہے مگر یہ صدیوں سے لاہور شہر سے منسلک شہر ہے اس لیے لاہور سے بہت مشابہت رکھتا ہے، لاہور پاکستان کا دل ہے تو قصور اس کی آنکھ ہے۔
قصور شہر اپنی مزیدار مٹھائیوں اور مسالے دار مچھلی کی وجہ سے مشہور ہے، کھانے پینے کے حوالے سے قصوریوں کی حسِ ذائقہ نہایت قابلِ رشک ہے، ملک بھر میں قصوری فالودہ کی ایک جداگانہ شناخت ہونے کے ساتھ ساتھ قصوری اندرسہ، بھلے پکوڑیاں، اوجڑی اور ناشتے میں دہی کلچہ نہایت مرغوب سمجھے جاتے ہیں۔ ملنساری، زندہ دلی اور محنت یہاں کے لوگوں کے امتیازی اوصاف ہیں۔
ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر نے1526ء میں ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد افغانوں کی خدمات کے صلے میں قصور کا علاقہ ان کو عنایت کر دیا ،یہاں پر زیادہ تر منظم حکومت افغانستان کے پٹھانوں کی رہی ہے جنہیں دہلی یا لاہور حکومت کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا لیکن وہ مقامی طور پر خود مختار حیثیت رکھتے تھے، کہا جاتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں چین کا ایک مشہور سیاح ہیون تسانگ یہاں پہنچا اور یہاں کے حالات بھی تحریر کیے، اس کی تحریر سے ہمیں آثار قدیمہ کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں، اس سے قبل قصور کا تاریخی حوالے سے تذکرہ مفقود ہے۔
قصور کی گنڈا سنگھ والا سرحد مشہور ہے یہ انڈیا اور پاکستان کو ملاتی ہے، اس کا تقسیم ہند سے قبل قصور کے مضافاتی قصبات میں شمار ہوتا تھا۔ یہاں پرپاکستان اوربھارت کی مشترکہ پرچم کشائی کی تقاریب ہوتیں ہیں، جب کہ اس بارڈر کے دوسری طرف بھارت کا شہر فیروزپورہے اسی طرح 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں فتح ہونے والابھارتی شہر کھیم کرن بھی ہے یہاں پر ایک بڑی ٹینکوں کی جنگ کے مقام کی وجہ سے ٹینکوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔
قصور جنکشن ریلوے اسٹیشن شہر کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ تقسیمہند سے پہلے قصور بذریعہ ریل امرتسر،فیروزپور سے ملا ہوا تھا مگر اب یہ ریلوےلائن ختم کر دی گئی ہے اور اس کا زیادہ تعلق بذریعہ سڑک اور ریل لاہور شہر سے قائم ہے، یہاں کی زیادہ تر نقل وحمل اور تجارت لاہور ہی سے منسلک ہے، لاہور سے کراچی جانے والے ریلوے ٹریک پر رائے ونڈ جنکشن ریلوے اسٹیشن سے قصور کے لیے ایک ریلوے لائن علیحدہ ہوتی ہے جو قصور شہر سے گزرتی ہوئی براستہ کھڈیاں خاص اورکنگن پور ضلع قصور سے نکل کر لودھراں جا پہنچتی ہے، جبکہ 1910ء میں قصور سے لودھراں تک ریلوے ٹریک مکمل ہوا۔ اس کے علاوہ 1883ء میں رائے ونڈ سے گنڈا سنگھ والاتک ریلوے لائن بچھائی گئی۔ قصور شہر کے مشرقی حصے سے فیروزپور روڈ گزرتی ہے جو لاہور سے شروع ہو کر براستہ گنڈا سنگھ والا فیروزپور تک جاتی ہے، تقسیمہند کے بعد یہ سڑک بین الاقوامی پاک بھارت سرحد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، یہ شاہراہ قصور شہر سے لاہور تک تقریباً 55 کلومیٹراور بھارتی شہر فیروزپور تک 25 کلومیٹر ہے ۔
قصور کا عجائب گھر فیروزپور روڈ پر ضلعی کمپلیکس کے سامنے واقع ہے، جس کا قیام 1999ء میں عمل میں آیا، قصور عجائب گھر میں تاریخ کے مختلف ادوار اور ثقافت کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں، اس میں آثار قدیمہ کے متعلق چکوال سے دریافت شدہ پرانے درختوں اور ہڈیوں کے نمونے رکھے گئے ہیں، جن کی عمر کا اندازہ 88 لاکھ سے ایک کروڑ سال تک کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ہڑپہ اور چکوال کے دیگر تاریخی مقامات کی کھدائیوں سے ملنے والے پکی مٹی کے برتن، ٹھیکریاں، انسانی و حیوانی مورتیاں، اوزان کے پیمانے اور باٹ کے علاوہ گندھارا عہد کے متعلق بدھا اور ہندو دیوتاؤں کے مجسمے بھی رکھے گئے ہیں۔
صدیوں پرانی روایت پارچہ بافی کے یہاں کے جولاہے (انصاری) وارث ہیں۔ اس صنعت میں کپڑے کی قسم "بافتہ" کو خاص امتیاز حاصل ہے جس میں ایک ریشم کے تار کے ساتھ سوت کے ایک تار کو بُنا جاتا ہے، گرم اوڑھنیوں میں یہاں کے جولاہے کھیس بنانے میں خاص کمال رکھتے ہیں۔
قصور چمڑے کی صنعت کے اعتبار سے ایک اہم شہر ہے، جانوروں کی کھال سے چمڑا تیار کرنے کی قدیم صنعت بھی قصور شہر کی خاص شناخت ہے، چمڑے کی صنعت کی وسعت اور قدامت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدیوں سے تازہ گیلی کھال سے ماس اور خون کی باس نکالنے، بالوں کی صفائی وغیرہ سے لے کر قابلِ استعمال سوکھے چمڑے کی تیاری تک کے مراحل میں جو خاص کیمیاوی مواد برتا جاتا ہے، اس سے قصور کی زمین کے نیچے موجود پانی نہایت آلودہ ہو چکا ہے، اس پانی کو پینے اور دیگر ضروریات میں استعمال کرنے کی وجہ سے قصور میں کینسر کے مریضوں کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے، یہاں پانی کا ایک بڑا ٹریٹمنٹ پلانٹ قائم کیا گیا ہے جو شہر بھر کو پینے کا صاف پانی مہیا کرتا ہے، اس اقدام کی وجہ سے صورتِ حال کی سنگینی میں بہت کمی واقع ہوئی۔
اشتقاق
[ترمیم]قصور کا لفظ عربی زبان کے لفظ قصر کی جمع ہے جس کا معنی محل ہوتا ہے، قصور شہر کو شہنشاہ اکبر کے دور میں کندھار کے پٹھان امرا نے آباد کیا اور یہاں پر اپنے خاندانوں کی رہائش کے لیے علاحدہ علاحدہ قلعہ نما محل تعمیر کروائے، انہی محلات کی وجہ سے قصور کا نام معرض وجود میں آیا۔
پہلے زمانے میں ان کے بڑے بڑے دروازے تعمیر کیے گئے تھے، اب ان کے صرف آثار باقی ہیں یہ محلات بعد میں کوٹ کے نام سے مشہور ہوئے بہت سے کوٹ اب بھی انہی پرانے ناموں کے ساتھ موجود ہیں۔ مثلاً کوٹ حلیم خاں، کوٹ فتح دین خاں، کوٹ عثمان خاں، کوٹ غلام محمد خاں، کوٹ رکن دین خاں ،کوٹ مراد خاں،کوٹ اعظم خاں، کوٹ بدردین خاں، کوٹ پیراں، کوٹ بڈھا ،کوٹ میربازخاں، کوٹ شیربازخاں، دھوڑکوٹ، روڈ کوٹ اور کوٹ علی گڑھ وغیرہ۔
مشہور شخصیات
[ترمیم]- بابا بلھے شاہ
- خورشید محمود قصوری
- شارے خاں (مختار احمد المعروف شارے خاں احمد خاں)
- نور جہاں (گلوکارہ)
- معراج خالد
- ارشاد احمد حقانی
- سردار آصف احمد علی
- سیٹھ عابد حسین
- بڑے غلام علی خان
- نجم سیٹھی
- پروفیسر غازی علم الدین
- ملک احمد سعید خان
- علیم شکیل
- محمد محسن خان
- ملک محمد احمد خان
- مفتی ثناء اللہ مدنی
- رانا محمد اسحاق خان
- رانا سرفراز احمد خان
- بابائے قصور ریاض انجم
- صفیہ ہارون
- علامہ احمد علی قصوری
- یوسف خان اداکار
- سید خادم حسین کاظمی المشہدیسانچہ:Https://photos.google.com/photo/AF1QipPjCtg7U9bAcJxhhha2mEYOSPPupz7QK 4N7zMJ فیروزپوری قصوری: شجادہ نشین دربار حضرت میراں شاہ نور
قصور لاہور موٹروے
[ترمیم]قصور لاہور موٹر وے کا افتتاح جنرل پرویز مشرف نے کیا۔ یہ چھ لائن پر مشتمل ہے اور شہباز شریف کی سرکردگی میں تکمیل کو پہنچی۔ درحقیقت یہ پاکستان کی خوبصورت ترین سڑکوں میں سے ایک ہے۔ اس کے بنانے کا اہم مقصد بھارت کے ساتھ تجارت کو فروغ دینا تھا۔ [1]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bullehshah.tk (Error: unknown archive URL)
قصور کے کوٹ
[ترمیم]قصور شہر کو بارہ کوٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اب یہ شہر کافی پھیل چکا ہے، تا ہم یہ کوٹ اب بھی موجود ہیں۔ پہلے زمانے میں ان کے بڑے بڑے دروازے تعمیر کیے گئے تھے، اب ان کے صرف آثار ہی باقی ہیں۔ ان کے نام ذیل میں ہیں:
- کوٹ غلام محمدخان
- کوٹ عثمان خان
- کوٹ حلیم خان
- کوٹ رکن دین خان
- کوٹ فتح دین خان
- کوٹ اعظم خان
- کوٹ بدر دن خان
- دھور کوٹ
- روڈ کوٹ
- کوٹ مراد خان
- کوٹ امیر باز خان
- کوٹ علی گڑھ
قصور کے قصبے
[ترمیم]مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "Kasur, Pakistan Metro Area Population 1950-2020"۔ www.macrotrends.net