مندرجات کا رخ کریں

زر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.

پیسہ یا زَر (money) ایک ایسی شے ہے جسے اجناس (goods) اور خدمات (services) وغیرہ کے تبادلے میں دیا جاتا ہے۔ یعنی یہ ایک وسیلۂ مبادلہ ہے۔ یہ چیزوں کی قیمت کا اندازہ لگانے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ جس چیز کو خریدنے کے لیے جتنے پیسے یا زَر کی ادائیگی ہوتی ہے وہ رقم اُس چیز کی قیمت کہلاتی ہے۔ اِس کو مال بھی کہاجاتا ہے جس کی جمع اموال ہے۔

معاشیات میں زَر سے مراد ایک ایسا وسیلۂ مبادلہ (medium of exchange) ہے جو معروف ہو، معیاری قدر کا حامل ہو اور ذخیرہ قدر (store of value) کا کام دے سکے۔ مثلاً کرنسی، سکے، طلبی امانتیں، طویل المدتی امانتیں، بانڈز، ہنڈیاں، سیونگ سرٹیفیکیٹ اور فنڈز وغیرہ۔

زر کا ارتقا

جب انسان نے تہذیب کی دنیا میں قدم رکھا تو اس کو لین دین کی ضرورت پیش آئی۔ اس نے لین دین کے لے ے پہلے پہل اشیائ کے تبادلے کو استعمال کیا۔ مگرجلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ اس طرح لین دین آسان نہیں ہے۔ اس لے ے اس نے تبادلے کو آسان بنانے کے لیے سوچنا شروع کیا۔ انسان نے تبادلے کے لے ے مختلف اشیائ کو استعمال کیا اور صدیوں کے تجربات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کے ل سونا سب سے بہتر ہے۔

سونا اپنی چمک دمک اور پائیداری کے باوجود دنیا میں محدود مقدار میں ہے۔ اس لے ے اسے رفتہ رفتہ زر کی حیثیت حاصل ہو گئی اور جلد ہی اس کے سکے وجود میں آ گئے اور اس نے زر مستحکم کی حیثیت حاصل کر لی اور یہ ہر طرح کے لین دین میں مستحکم طور پر تسلیم کیا جانے لگا۔ اس سے نہ صرف لین دین آسان ہو گیا، بلکہ کاروبارمیں تیزی آگئی۔

سونا چوں کہ دنیا میں محدود مقدار میں تھا، اس لے ے عام طور پر اس کی قدر مستحکم رہتی تھی۔ اگرچہ کبھی کبھار کسی قوم یا ملک میں فتوحات یا کسی کان کی دریافت کی بدولت اس محدود خطے میں محدود وقت کے لے ے سونے کی افراط ہوجاتی تھی۔ لیکن اشیائ تعیش کی خریداری کی وجہ سے سونے کی کثیر مقدار اس خطے سے نکل کر تجار ت پیشہ لوگوں کے پاس چلی جاتی تھی۔ مگر چونکہ عام لوگوں کے پاس سونے کی محدود مقدار رہ جاتی تھی۔ اس لے ے وہ صرف اشیائ ضرورت ہی خرید پاتے تھے۔ اس کے نتیجے میں تجارت اور دوسرے پیشوں کوزوال آجاتا تھا اور اس لیے دنیا صدیوں کے سفر میں بنیادی طور پر زر کی کمی کا شکار رہی۔

کاغذی زر شروع شروع میں مختلف ساہوکاروں نے جاری کیے تھے۔ یہ دراصل اس سونے کی رسیدیں تھیں جو ان کے پاس بطور امانت رکھا ہوتا تھا۔ ان رسیدوں کے مطابق ساہوکار حامل ہذا کو درج شدہ مقدارا دا کرنے کا پابند تھا۔ جلد ہی ان زری رسیدوں نے بڑی مقبولیت حاصل کر لی، کیوں کہ یہ استعمال میں آسان اور محفوظ تھیں۔ ان سے لین دین میں بڑی سہولت حاصل ہو گئی اور تجارتی سرگرمیاں بھی بڑھ گئیں۔ لہذا ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بینک آف انگلینڈ نے انھیں جاری کرنے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ یہ کرنسی نوٹ بھی سونے کے بدلے جاری ہوئے تھے اور بینک آف انگلینڈ ان کے بدلے حامل ہذا کو سونے کی درج شدہ مقدار ( سکے یا سکوں کی صورت میں) ادا کرنے کا پابند تھا۔ یہ نظام اگرچہ مستحکم تھا لیکن غیر لچک دار تھا، اس لے ے یہ اب کسی ملک میں رائج نہیں ہے۔

1944ئ میں برٹن وڈ Bretton Wood کانفرنس میں یہ طے پایا کے کہ کرنسی کے نظام کو سونے سے علاحدہ کر دیا جائے۔ کیوں کہ برآمد بڑھانے کے لے ے ہر ملک کوشش کر رہا تھا کہ اس کی کرنسی کی قدر کم رہے اور اس طرح اس کی اشیا بیرونی ممالک میں سستی فروخت ہوں۔ کرنسی کی قدر گرانے سے ( جو سونے کے بدلے گردش کر رہی تھی) مقدار زر بڑھ جاتی تھی۔ اس طرح ملک میں افراط زر پیدا ہوجاتا تھا اور اس کوروکنے کا واحد ذریعہ سونے کی کرنسی سے علیحدگی تھا۔ لہذاسونے کو کرنسی سے علیحد ہ کرنے کا عمل 1968ئ میں شروع کیا گیا اور1971ئ تک کرنسی نوٹوں کو کرنسی سے مکمل طور پر علاحدہ کر دیا گیا۔

آج کل بیشتر زر کاغذی ہوتا ہے، جس کی حیثیت صرف کاغذ کی ہے جس پر طبع کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ بلعموم غیر بدل پزیر ہے۔ یعنی بینک یا حکومت اسے سونے یا کسی اور چیز میں تبدیل کرنے کا وعدہ نہیں کرتی ہے۔ اس کے باوجود یہ اپنا کام اچھی طرح انجام دیتا ہے اور ہر شخص اسے قبول کرلیتا ہے۔ کیوں وہ جانتا ہے اس سے وہ اشیائ یا خدمات کے خریدنے یا اپنے قرضے کے تضفیئے کے لے ے استعمال کر سکتا ہے۔ اس اعتمادکی و جہ سے لوگ اپنی قیمتی اشیائ اور خدمات چند پرزوں کے بدلے دے ڈالتے ہیں اور یہ اعتماد اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک اس کی قدر مستحکم رہے۔ تاہم اس کی اشاعت زیادہ ہوجاتی ہے تو بداعتمادی پیدا ہونے لگتی ہے اور اس صورت میں ممکن ہے لوگ اسے قبول کر نے انکار کر دیں۔

یہ حقیقت ہے جب سے زر کا تعلق سونے سے ختم ہوا ہے، دنیا کی کسی کرنسی میں استحکام نہیں رہا ہے۔ ہم اگر 1930 سے دنیا کی کرنسیوں کی قدر سے موازنہ کریں تو ہر ملک کی کرنسی سونے کے مقابلے میں گرتی رہی ہے۔ یہ کرنسی کی گرتی قدر معاشی ترقی اور روزگار کے لے ے ضروری ہے۔ لیکن اس تیزی سے نہیں کہ ملک عدم استحکام کا شکار ہو جائے۔ جیسا کہ 1997 میں آسیان کے ملکوں میں ہوا تھا۔ اگرچہ اس کی بڑی وجہ غیر پیداواری سیکٹر میں یعنی پراپرٹی، سٹے بازی اور سامان تعیش میں سرمایاکاری ہے۔

* زر کو آلہ مبادلہ کی حیثیت سے عام مقبولیت حاصل ہے۔ اس لے ے کہ فطری طور پر اس کے ذریعے اشیائ کی قدریں ظاہر کی جاتیں ہیں۔ معاہدات اور حسابات اسی کے ذریعے رکھے جاتے ہیں۔ زر کے پیمانہ قدر کی حیثیت سے استعمال نے معاشی حساب کتاب میں بہت آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ کیوں کہ قدر اور مصارف کا موازنہ کرنے کے لے ے کوئی مشترک پیمانہ ہو نہ تو حساب کتاب میں بے حد مشکلات پیش آئیں گی۔ زر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ذخیرہ قدر کی حیثیت سے کام انجام دیتا ہے۔ لیکن دنیا بھر کی کرنسیوں کی قدر جہاں گھٹ رہی ہو، وہاں یہ کام سوناجواہرات اور دوسری اشیائ کہیں بہترطور پر انجام دے سکتی ہیں۔ کیوں کہ زر اگرچہ تمام اثاثوں سے زیادہ سیال ہے۔ لیکن زر کی حیثیت سے ایک خاص رقم ہمیشہ وہی رہتی ہے اگرچہ اس کی قوت بدل گئی ہو۔

بعض لوگوں کے خیال میں زر ایک کام انجام دیتا ہے۔ یعنی ملتوی شدہ ادائیگیوں کے معیار کی حیثیت سے معاہدات بشمول قرض وغیرہ۔ زر کی قدر اس کی قوت خریدمعاہدات بشمول قرض وغیرہ کی شکل میں ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ زر کی قوت خرید معاہدے کی مدت کے اندر نہیں بدلے گی۔ اگر خوف ہو کہ قدر بدل جائے گی تولوگ اپنے معاہدے کسی اور چیز، یعنی مثلأٔ سونا یا کسی غیر ملکی کرنسی مثلأٔ ڈالر میں کرنے لگیں گے یا پھر وہ طویل مدتی معاہدے سے احتراز کر نے لگیں گے۔ چنانچہ 1930 کے دوران میں بین الاقوامی لین دین کا زیادہ رواج نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بیرونی سرمایا داروں کو خوف تھا کہ قرض دینے والے ملکوں کی کرنسی کی قدریں گرجائیں گی۔

اگر یہ توقع ہو کہ زر کی قدر نہایت مستحکم رہے گی، تو قرض اور طویل مدتی معاہدے جن کی مستقبل میں ادائیگی کرنی ہو زیادہ کیے جائیں گے اور زر کو چھوڑ کر کسی اور شے مثلأٔ سونا یا غیر ملکی کرنسی میں معاہدے نہیں کریں گے۔ اس سے یہ نتیجہ باآسانی اخذکیا جا سکتا ہے کہ زر کی قدر مستحکم رہنا ضروری ہے۔

ہم اگر زر کے پیچھے جھانک کر پیداوار اور حقیقی آمدنیوں کو دیکھیں تو یہ محض مبادلے کو ترقی دینے کا آلہ ہے۔ لیکن یہ نہایت اہم آلہ ہے اور جدید زندگی کی آسائشیں جن کی بدولت قائم ہے ں، وہ زر کے بغیر ہر گز وجود میں نہیں آسکتی ہیں۔ لیکن جو چیزہم کو مطلوب ہے وہ زر نہیں بلکہ وہ جو ہم زر کے عوض خرید سکیں۔

کینز Keynes اور دوسرے لوگوں نے بالکل بجا طور پر اصرار کیا ہے کہ ایک زری معیشت میں زری تغیرات حقیقی تغیرات برپا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ زر کی مقدار میں اضافہ ہو جائے تو ممکن ہے اس سے مکمل روزگار کی راہ کھل جائے۔ اگر یہ تجویز حد سے بڑھ کر اختیار کی جائے تو بڑھتی ہوئی قیمتوں کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اشخاص اور طبقات کے درمیان میں آمدنی کی تقسیم کی صورت بدل سکتی ہے۔ غالبأٔ پہلے پہل موافق اثرات مرتب ہوتے دکھائی دیں گے۔ لیکن بالآخر اس کے برعکس علامات نمودار ہونے لگیں گی۔

سونا

سونا ہماری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ عام لوگوں کے نزدیک یہ صرف زیورات میں استعمال ہوتا ہے۔ مگر حقیقت میں یہ اس کا مختصر حصہ ہوتا ہے۔ جب کہ اس کا بیشتر حصہ سرد و تاریک تہ خانوں میں لوگوں کی نظروں سے اوجھل دنیا کی کرنسیوں کو استحکام بخش رہا ہے اور دنیا کی بڑی بڑی کرنسیوں کے استحکام یا قوت کے پیچھے اس کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس لیے بڑے بڑے بروکر اور بینکر اس کا ذخیرہ رکھتے ہیں اس سے بین الاقوامی مارکیٹ میں ان کی ساکھ بنی رہتی ہے۔ اگرچہ سونے سے بھی زیادہ قیمتی دھاتیں موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود سونے کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے اور اپنی جگہ مستحکم اور مسلم ہے۔ انیسویں صدی سے پہلے سونا گھرمیں محفوظ رکھا جاتا تھا جہاں وہ اپنی خدمات انجام نہیں دیتا تھا۔ کیوں کہ اس سے کاغذی زر کو فائدہ نہیں پہنچتا تھا۔

قدیم زمانے میں سونے کے سکے استعمال ہوتے تھے۔ لیکن گذشتہ انیسویں صدی کی ابتدا میں مختلف ملکوں نے سونے کے بدلے کاغذی نوٹ جاری کیے۔ لیکن اس کے باوجود سونے کی زر کی حیثیت سے مقبولیت بدستور رہی۔ اس وقت کوئی مضبوط کرنسی نہ ہونے کی وجہ سے اس کو بدستور استعمال کیا جاتا رہا۔ یہ حقیقت ہے یہ اب بھی دو مختلف ملکوں کی کرنسی کے درمیان میں توازن قائم کرتا ہے اور سونے کو اب بھی زر کی حیثیت حاصل ہے۔

پہلے پہل کاغذی نوٹ سونے کے بدلے جاری ہوئے تھے۔ سونے کی قلیل مقدار زر کی بڑھتی ہوئی مانگ پوری نہیں کر رہی تھی۔ اس لیے اس صدی کی ساتویں دہائی تک سونے کا کرنسی سے مکمل تعلق ختم کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے بیسویں صدی کی ابتدامیں سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ ہوا اور نصف دہائی کے بعد اس میں تیزی آتی گئی اور ستر کی دہائی کے بعد اس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اگر چہ یہ اضافہ صرف سونے کی قیمتوں میں ہی نہیں ہوا بلکہ چاندی اور دوسری دھاتوں اور تمام اشیا اور خدمات کی قیمتوں میں بھی ہوا ( 1,8 فیصد سالانہ )۔ اب اگرچہ کسی ملک کی کرنسی کے استحکام اور مضبوطی کاتعین سونے کی مقدارسے نہیں کیا جاتا ہے۔ بلکہ کسی کرنسی میں استحکام اور مضبوطی اس کی معاشی منصوبہ بندی کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ تاہم اب بھی سونے کو ایک بین الاقوامی کرنسی کے طور پر استعمال کیاجاتا ہے۔

سونے کی کہانی صدیوں تک پھیلی ہوئی ہے، انگلینڈ میں گذشتہ چار صدیوں ( جب کہ امریکا کی کہانی صرف دوسو سال پرانی ہے ) سے بظاہر سونے کی قیمتں ٹہریں ہوئی تھیں۔ لیکن جب ہم اس کادوسری اشیائ کی قیمتوں کا سے موازنہ کریں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس دوران میں سونے کی قیمتوں میں کمی و بیشی ہوتی رہی ہے۔

1815 سے 1914 کے درمیان میں جب کہ بین الااقوامی سونے کا معیار لندن سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل گیا تھا۔ نیپولین کے عروج 1891 اور جنگ سے پہلے جب برطانیہ نے سونے کے بدلے پونڈ اسٹرلنگ جاری کیے تھے۔ 1873ئ کے درمیان یعنی نصف صدی کے بعد عام طور پریہ سمجھا جانے لگا کہ سونا ہی ایک ایسا معیار ہے جو مختلف ملکوں کے درمیان میں درآمد و برآمد کے درمیان میں قیمتوں کو مستحکم و برابر رکھ سکتا ہے۔ پھر آنے والی چوتھائی صدی 1873ئ تا 1896ئ کے دوران میں سونے کی قیمتیں ایک تہائی تک گرگئیں، تاہم 1913ئ میں ہی واپس اپنے پرانی قیمت پر آگئیں۔

ہم اگرسونے کے ذخائرمیں ا ضافے اور دنیا بھر کی اشیائ صرف کی پیداوار کے درمیان محتاط موازنہ کریں تو کماحقہ اندازہ ہوگا کہ سونے کی پیداوار میں اضافہ کرنسی کی ضرورتوں کے مطابق نہیں رہا ہے اور یہ اضافہ ضرورت سے بہت کم رہا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل تخمینہ ہمیں بتاتا ہے۔

عرصہ اشیا صرف کی پیداوار میں سالانہ اضافہ کرنسی کی طلب
1800–1850 1.0 فیصد سالانہ مثبت
1850–1900 1.9 فیصد سالانہ مثبت
1900–1950 2.0 فیصد سالانہ مثبت
1950–1980 5.1 فیصد سالانہ ہلکی سی کمی

* اس دوران میں سونے کی پیداوار بہت آہستہ بڑھ رہی تھی، جب کہ1800 تا 1820 اور 1873 تا 1896 کے عرصہ کے دوران میں اس کی قیمتیں گرگئیں تھیں۔

سرنامے کا متن سرنامے کا متن
دور زر ی ذخیرہ میں سونے کاسالانہ اضافہ
1800–1820 0.4 فیصد سالانہ
1820–1850 0.7 فیصد سالانہ
1850–1873 2.9 فیصد سالانہ آسٹریلیا اور کیلیفورنیا میں سونے کی دریافت
1873–1896 1.7 فیصد سالانہ
1896–1913 3.2 فیصدسالانہ کلوندک اور ٹرانسوال میں سونے کی دریافت
1913–1950 2.2 فیصد سالانہ
1950–1980 1.8فیصد سالانہ

الا الذکر تخمینہ سے پتہ چلتا ہے کہ سونے کے ذخیرہ زر کے اضافہ میں مسلسل اتار اور چڑھاؤ جاری رہاہے اور دنیا میں تفریق زر کے دو ادوار 1800 تا 1820 اور 1873 تا 1896 کے عرصے میں سونے کے اضافہ شرح نہایت کم رہی ہے۔ شاید اس لیے اس عرصے کے دوران میں دنیا بھرکی اشیائ صرف کی قیمتوں میں کمی آئی تھی۔ جب کہ 1950 تا 1980 کے درمیان میں دنیا کی معیشت میں نہایت تیزی ( 5.1 فیصد سالانہ ) آئی اور ذخیرہ زر میں اس کی پیداوار میں ( 1.8 فیصد سالانہ ) کمی آئی۔ سونا جو ابتدا ہی سے کرنسی کی مانگ کو پورا نہیں کر پا رہا تھا، اس دور میں سونے کے معیار کو ترک کرناپڑا، البتہ اس کی خدمات دنیا میں بطور عام کرنسی کے بدستور استعمال ہو رہی ہیں۔

انیسویں صدی میں سونا بین الاقوامی ادا ئیگیوں میں استعمال ہونے لگا۔ دنیا کے ممالک اپنی کرنسی کے اس حقیقی مطالبات زر کو اس سونے سے پورا کر رہے تھے جو ان کے پاس محفوظ تھا۔ اس کے لیے اِن کی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ اپنے سونے کے ذخیرے میں اضافہ کریں۔ سونے کی قیمتوں میں اضافہ کے لیے انھوں نے اپنی حقیقی ضرورت سے زیادہ سونا جمع کر لیا تھا۔ تاکہ سونا زیادہ سے زیادہ کانوں سے نکالا جائے۔

آ ج کل دنیا کا بیشتر سونا جنوبی افریقہ سے نکالا جا رہا ہے۔ وہاں دنیا کی پیدا وار کا نصف سونا نکل رہا ہے۔ جب کہ سابقہ روس کے علاقوں میں 30 فیصد، کنیڈامیں 3.8 فیصد، امریکا میں 2.3 فیصد اور دوسرے ملکوں میں 3.9 فیصد سونا نکل رہا ہے۔ سونے کی قیمت مقرر نہ ہونے کی وجہ سے اس سے غیر متوقع فائدہ دو ملکوں یعنی جنوبی افریقہ اور سابقہ روس نے اٹھایا۔

سونے کے معیار کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سونے کو کم مقدار میں خریدیں اس طرح سونے کی قیمتوں میں کمی آجائے گی۔ جیسا کے 1929ئ میں ہوا تھا۔ اس میں حقیقت ہے کہ سونے کے معیار کو قائم رکھنے کے لیے شروع ہی سے سونے کی کمی رہی ہے۔ ایسی ہی کمی سونے کی کانوں کی دریافت ( امریکی سونا کی دریافت سولویں صدی اور سترویں صدی کی ابتدا میں، کیلیفورنیا و آسٹریلیا کے سونا کی آمد، انیسوں صدی کے درمیان میں، کلونڈک، ٹنسوال کے سونا کی آمد اسی صدی میں ) کے وقت بدستور تھی۔ اس لیے دنیا سونے کی کمی سے مطمئن نہیں تھی، اس لیے ضروری تھا کہ سونے کے معیار سے علیحدگی اختیار کر لے۔ دوسرے لفظوں میں سونے کے معیار سے دست برداری ہو چکی تھی، یعنی یہ اعلان تھا کہ حقیقی زر کی ضرورت بڑھ رہی ہے اور مطالبات زر بھی اسی تیزی سے بڑھ تھے اور یہ سبب سونے کی قیمتوں میں استحکام کا باعث بنا۔ جب کہ آزادانہ روپیہ کی طلب سونے کے معیار سے کم ہو چکی تھی۔ یہ تجزیہ بتاتا ہے کہ سونے کی قیمتوں میں استحکام یا قیمتوں میں اضافے کی حقیقی مزاحمت کو جو سونے کے معیار کے زیر اثر مستحکم قیمتوں کے طریقہ کار سے عدم استحکام کی جانب گامزن ہوتی ہیں۔

گذشتہ سوسال کے جائزے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ سونا کافی کامیاب معیار ہے یا دوسرے سامان کا عمدہ معیار ہے۔ شاید اس لیے سونا فرضی طورپرایک معیاری کرنسی کو وہ اعتماد دیتا ہے جیسا کہ سونا خود کرنسی ہو جو رکھنے والے کو اعتماد دیتا ہے۔ اس وجہ سے یہ سوال ابھرتے ہیں کہ سونے رکھنے میں کیا پریشانی ہے؟مستحکم کرنسیوں میں سودی آمدنی کیوں نہیں حاصل کی جاتی ہے؟ خیال رہے سونا رکھنا ایک پانی کا جہاز رکھنے سے بھی زیادہ مہنگا ہے۔ کیوں کہ سونا دنیا کی کسی بھی کرنسی سے زیادہ سیال ہے۔

سونے اور کرنسی کا تعلق 1968 سے ختم ہونا شروع ہو گیا، خاص کر 1971 سے یہ تعلق بالکل ختم ہو گیا تھا۔ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ سونے کے معیار کو کس طرح زوال آیا اور اب حکومتیں سونے کی بجائے مستحکم کرنسیوں کو حاصل کرنے کو ترجیع دیتی ہیں۔ جب کہ لوگ اور نجی ادارے رومانوی طور پر اس پر توجہ دیتے ہیں ( امریکا نے 1971ئ میں عام لوگوں کو سونا رکھنے کی اجازت دی تھی )۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سونے کی قیمتیں تیزی سے بدلتی رہتی ہیں، اس لیے کوئی حکومت سونے کو یکساں قیمت پر خرید و فروخت نہیں کرسکتی ہے۔ یہ صرف ایسی صورت میں ممکن ہے کہ حکومت کی کرنسی کی قیمت سونے کی تیزی سے بدلتی ہوئی قیمت کا ساتھ دے، لیکن یہ ناممکن ہے۔ اس لیے کہ کوئی بھی حکومت اس بات کی ہمت نہیں کرسکتی ہے کہ وہ سونے کے بدلے کرنسی حاصل کرے۔ اس لیے سونے کا کاروبار کرنے والا کوئی بھی شخص سونے کی قیمت کو سرکاری مقابلے میں بلند کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے سونے کی قیمتوں میں پچھلے برسوں اتنی تیزی کیوں آئی ہے؟ اس کا بہترین اور مختصر جواب یہ ہے کہ سونے کی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے والے آ گئے ہیں۔ یہ حیرت کی بات دکھائی دیتی ہے کہ یہ مقابلہ کرنے والے لوگ آج کل کے وقت میں اپنے مال کی قیمتوں کو اس حد تک زندہ رکھتے ہیں جو آج کل کے وقت میں ایک خطرناک بات ہے۔

ایک آدمی سونا حاصل کرنا کیوں پسند کرتا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے آپ فرض کریں آپ ایک دولت مند شخص ہیں اور آپ دنیا کے کسی غیر مستحکم علاقے میں رہتے ہیں، تو آپ اپنے سرمائے کو محفوظ کس طرح کریں؟آپ اگر چاہیں تو یقینأٔ ذاتی طور پر ایسی چیزیں رکھ سکتے ہیں جو پیداوار دیتی ہیں مثلأٔ زمین فیکٹری یا بانڈ اگرچہ ان چیزوں پر آپ حکو مت کو ٹیکس دیتے ہے ں، لیکن عدم تحفظ کی وجہ سے یہ سیاسی جوا ہے اور کسی انقلاب یا سیاسی بحران کی وجہ سے ان کے ضبط یا مجمند ہونے کا خطرہ بھی ہے۔ مثلََا امریکا نے 1979-81ئ کے دوران میں اچانک جب کہ ایران میں امریکی یرغمالیوں کے بحران کے دوران میں آئرن کی مصنوعات کو منجمد کر دیا تھا۔ یاد رہے سونا کوئی پیداواری چیز نہیں ہے اور سونارکھنا بہ نسبت ایک جہاز کے زیادہ مہنگا ہے۔ لیکن اس صورت میں آپ یقینا سونے کوترجیح دیں گے۔ کیوں کہ سونے کو بہ نسبت دوسری چیزوں کے بغیر کسی ٹیکس کے با آسانی چھپایا اور اس کی نقل و حرکت کی جا سکتی ہے۔

کسی چیز پر پیسہ لگانے کے لیے ایک پیشگی اطلاع کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہم سونے کے بارے میں ایسی کوئی پیشن گوئی نہیں کرسکتے ہیں۔ مثلاََ 1980 میں سونے کی قیمت اچانک پچاس فیصد گر گئی تھی۔ لیکن 1980 میں ہی اس کی قیمت میں نمایاں تیزی امریکی آئرن اور یرغمالیوں کے بحران دوران میں آئی۔ اس لیے سونے کا ایسا رویہ جبلی طور پر پیشن گوئی کرنے والا نہیں ہوتا ہے اور نہ ہم اس کو دور اندیشی سے درست کرسکتے ہیں۔ کسی قیمت کے استحکام سے دوسرے تعلقات میں جو خرابیا ں جنم لیتی ہیں وہ اس میں موجود ہیں۔

گذشتہ برسوں میں سونے کی قیمتوں میں تیزی سے بڑھنے کا سبب یہ ہے کہ اس کی پیداوار مانگ کے مقابلے میں تیس فیصد کم ہے۔ اس لیے سونے کی قیمت ایک مختصر وقت کے لیے گرتی ہے اور قیمت کے گرتے ہی لوگ اس کی خریداری شروع کرتے ہیں۔ اس طرح پھر سے اس کی قیمت میں تیزی آجاتی ہے اور اس طرح یہ کمی صرف ایک مختصر عرصے کے لیے ہوتی ہے۔ جیساکہ1980ئ میں ہوا تھا، جب کہ اس کی قیمتیں پچاس فیصد تک گر گئیں تھیں۔ لیکن 1980 میں اس کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سونے کی خریداری کم کریں۔ اس طرح اس کی قیمت گر جائے گی جیسے کہ 1929 میں ہوا تھا، جب اس کی قیمت دو تہائی تک گر گئی تھی۔ لیکن ہم اس کا غیر جانب داری سے جائزہ لیں اور معاشی تجزیہ کریں کہ جنگ عظیم اول کے بعد دنیا کی معیشت ابتری کا شکار ہو گئی تھی اور دنیا کی معیشت کو کساد بازاری اس طرح کھاگئی تھی جس طرح دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ لیکن دنیا جیسے ہی اس کسادبازای سے نکلی اور جہاں دنیا کی معیشت کو استحکام حاصل ہوا وہاں سونے کی قیمت کو بھی استحکام ملا۔ 1950 تا 1980 کے درمیان میں دنیا کی معیشت میں انتہائی تیزی (â 5.1 فیصد سالانہ ) آئی اور اس کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔

سونے کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمت کا سبب یہ بھی ہے کہ دنیاکے مختلف علاقوں میں سیاسی استحکام نہ ہونے کی وجہ سے اور افراط زر کی وجہ سے خاص کر درمیانہ طبقے کے لوگ کاروبار، تجارت اور صنعت کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اور سیاسی وجوہات کی بنائ پر سونا خریدنا پسند کرتے ہیں چاہے وہ زیور کی شکل میں کیوں نہ ہو حقیقت میں دنیا میں بحران یا سیاسی عدم استحکام بھی اس کی قیمت میں اضافہ کاموجب رہے ہیں۔

طلائی معیار

سوناغالبأٔ پانچ ہزار سال سے زر کی حیثیت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ بڑی حد تک بذات خود مطلوب ہے۔ اگر اسے زر کی حیثیت سے وسیع پیمانے پراستعمال نہیں کیا جائے تو اس کی قدر مبادلہ بڑی حد تک گھٹ جائے گی۔ یہ دھات پائیداری، تقسیم پذیری اور یکسانی کی خصوصیت رکھتی ہے۔ مزیدیہ کہ کانوں سے اس کی سالانہ رسد موجودہ ذخیرے کا صرف ایک معمولی حصہ ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ اس کی قدر میں مجموعی رسد کی تبدیلوں کی بنائ پر جو تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں وہ زوال پزیر اشیائ کے مقابلے میں بہت معمولی ہیں، جن کی سالانہ رسد کل ذخیرے سے زیادہ رہتی ہے۔

* موجودہ دور سے پہلے جو چیز زر کے طور پر استعمال ہوتی تھی وہ خود مطلوب ہوا کرتی تھی۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ زر کے طور پر استعمال ہو رہی اور اس کی مانگ میں اضافہ کے باعث اس کی قدر میں اضافہ کا موجب ہوا کرتی تھی۔ یہی حال سونے کا ہے۔ سونے کی ما نگ کا بڑا حصہ زری اغراض پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر امریکا اور دوسرے ممالک سونے کے محفوظات رکھنا چھوڑ دیں تو سونے کی قدر گھٹ جائے گی۔

پہلے پہل سونے کا مبادلہ اشیا کے ساتھ اسی طور پر کیا جاتا تھا اور اس کے سکے نہیں ڈھالے گئے تھے۔ ہر شخص جو اسے حاصل کرتا تھا وہ اطمینان کرتا تھا کہ اس کا وزن اور کھرا پن درست ہے۔ یہ عمومأٔ ٹکڑوں کی شکل میں ہوا کرتے تھے۔ بعد میں اس کے سکے وجود میں آ گئے، جس پر کندہ تصویراور وزن اس کے درست ہونے کی تصدیق کرتا تھا۔ اس طرح زحمت سے چھٹکارہ مل گیا۔

سترویں صدی میں لندن میں مبادلہ میں ان رسیدوں کا کثرت سے استعمال ہونے لگا، جو ان سناروں نے اس سونے کے بدلے جاری کی تھیں، جوان کے پاس بطور امانت رکھا گیا تھا۔ یہ رسیدیں بڑی مقبول ہوئیں۔ کیوں کہ ان سے لین دین میں بڑی سہولت تھی، اس سے کاروباری دنیا میں تیزی آگئی تھی۔

ان رسیدوں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بینک آف انگلینڈ نے انھیں جاری کرنے کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہ کرنسی نوٹ بھی بینک آف انگلینڈ کاوعدہ تھا۔ جو حامل ہذا کو اس کے مطالبے پر سونے کی ایک خاص وزن شدہ مقدار جو سونے کے سکہ یا سکوں کی صورت میں ادا کرے گا۔

طلائی معیار انیسویں صدی کی آخری تہائی او ربیسویں صدی تہائی میں مقبول ترین بین الاقوامی نظام زر تھا اور پہلی جنگ عظیم سے بیشتر یہ طلائی کرنسی معیار کی صورت میں رائج تھا۔ جس کی موجودگی میں سونے کے سکے زیر گردش ہواکرتے تھے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد اس نظام کو جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔ کیوں کہ اس کی کامیابی کی شرائط کو پورا کرنا ممکن نہ تھا۔ برطانیہ نے 1925 میں طلائی سلاخوں کا معیار رائج کیا، جس کے تحت کاغذی نوٹ جاری ہوئے۔ لیکن یہ کرنسی نوٹ سونے میں تبدیل کے ے جا سکتے تھے۔ جو سلاخوں کی صورت میں ہوا کرتا تھا۔

پہلی جنگ عظیم سے پہلے برطانیہ کی تجارت زوروں پر تھی اور دنیا کے اکثر ممالک کے سونے کے ذخائر بینک آف انگلینڈ میں( جو برطانیہ کا مرکزی بینک ہے )کے پاس جمع ہوتے تھے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکا کو بہت اہمیت حاصل ہو گئی۔ کیوں امریکا کے پاس سونے کی بڑی مقدار میں جمع ہو گئی۔ اس کے علاوہ برطانیہ کی تجارت بہت حد تک کم ہو گئی تھی۔ جس کے نتیجے کے طور پر برطانیہ کے لے ے طلائی معیار کو کامیابی سے چلانا ممکن نہ رہا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد دوسری تبدیلی واقع ہوئی وہ یہ تھی کہ یورپ کے اکثر ممالک نے طلائی مبادلت معیار کانظام اختیار کر لیا۔ ان کے سونے کے ذخائر زیادہ تر لندن، نیویارک اور پیرس میں تھے، اس وجہ سے بھی مالی بحران پیداہو گیا۔ علاوہ ازیں سونے کی قلت کی وجہ سے بین الاقوامی نظام زر کی حیثیت سے طلائی معیار کی مقبولیت میں کمی ہوئی۔

طلائی معیار کے ناکام ہونے کی درج ذیل وجوہات بتائی جاتی ہیں۔

  1. -جنگ عظیم اول کے خاتمہ پر مختلف ممالک کو تاوان جنگ اور قرض کی صورت میں بھاری رقوم کی ادائیگی کرنا پڑیں۔ قرض خواہ ممالک نے یہ رقوم سونے کی شکل میں لینے پر اصرار کیا اس کے نتیجے میں امریکا اور فرانس میں سونے کی کافی مقدار جمع ہو گئی۔ اس کے برعکس دوسرے ممالک میں سونا بہت کم مقدار میں رہ جانے کی وجہ سے وہ اس نظام کو جاری نہیں رکھ سکے۔
  2. -جنگ عظیم کے بعد سیاسی بے امنی کی وجہ سے فرانس نے بینک آف انگلینڈ سے اپنی رقوم نکلوانے کا فیصلہ کیا۔ اتنی بھاری رقوم کی ادائیگی کی وجہ سے طلائی معیار کا خاتمہ ہو گیا۔

طلائی معیار اس وقت کامیاب ہو سکتاہے جب تمام ممالک آپس میں تعاون کریں اور اس کی شرائط کو پورا کریں۔ یہ شرائط درج ذیل ہیں۔

  1. سونے کی نقل وحرکت آز ادانہ ہو اور اس پر کسی قسم کی پابندی نہ ہو۔ # حکومتیں اس نظام کو چلانے میں کسی قسم کی دخل اندازی نہ کرے ں۔ # سونے کو سکوں میں تبدیل کرانے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالے۔
  2. سونے کی تجارت کی آزادی ہو۔

جنگ عظیم اول کے بعد مختلف ممالک ان شرائط کو پورا نہیں کر سکے۔ اس لے ے یہ نظام ناکام ہو گیا۔ 1930 تا 1939 کا درمیانی عرصہ بین الاقوامی زری امور کے بارے میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا باعث بنا۔ برطانیہ نے 1931 میں طلائی معیار کو خیر باد کہہ دیا اور سٹرلنگ کی قدر کو سونے کی صورت میں کم کر دیا۔ امریکا نے 1933ئ میں طلائی معیار کو خیر باد کہہ دیا اور ڈالر کی قدر گھٹادی، جس کی وجہ سے برطانیہ کی حالت مزید کمزور ہو گئی۔ اس کے بعدکچھ ممالک جن کا مرکز فرانس تھا انھوں نے اسے 1936 تک جاری رکھا۔

کاغذی زر

کرنسی نوٹ کیا ہے؟ یہ کسی بھی حکومت کا وعدہ ادائیگی زر ہے۔ جبکہ سرکاری کفالتیں بھی حکومت کا وعدہ ادائیگی ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ سرکاری کفالت حامل سود ہے، جب کہ کرنسی نوٹ سود سے مبرا ہے۔ حکومت نوٹوں کو چلانے کے موجودہ طریقہ کار میں مرکزی بینک کو حامل سود ہنڈیاں دیتی ہے تاکہ نوٹ چھاپے جائیں۔ جب مرکزی بینک کو احساس ہوتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ نوٹ گردش کر رہے ہیں تو وہ ان کفالتوں کو تجارتی بینکوں کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے۔

کاغذی زر میں عمدہ زر کی خصوصیات موجود ہیں، لیکن ان خصوصیات سے جو خرابیاں جنم لیتی ہیں وہ اس میں موجودہیں۔ یہی وجہ ہے اس نظام میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ کاغذی نوٹ بڑی تعداد میں چھپ جائیں۔ کیوں کے بعض اوقات حکومت قرض لینے کی بجائے نوٹ چھاپ لیتی ہے۔ اس طرح نوٹوں کی رسد میں اضافہ سے جہاں اخراجات بڑھ جاتے ہیں وہیں ملک میں افراط زر بھی ہوجاتا ہے۔ جس سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح کاغذی زر ہمیشہ ملک میں قبول ہوتا ہے۔ کیوں کہ بیرون ملک کے مابین مشترکہ معیار کے لے ے دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیوں کے کاغذی زر کی قدر غیر مستحکم رہتی ہے اور اس کی رسد میں اضافے کی بدولت اس کی قدر میں تبدیلی آجاتی ہے۔

موجودہ کاغذی زر کی وجہ سے بہت سہولت حاصل ہو گئی ہے۔ اس پر خرچہ بھی کم آتا ہے۔ اسے باآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منقل کیا جا سکتا ہے۔ ہنگامی حالات میں نوٹوں کی بڑی تعداد کو چھاپہ جا سکتا ہے، اس طرح حکومت اپنے بڑھے ہوئے اخراجات سے عہدہ براہ ہو جاتی ہے۔ کاغذی زر کی وجہ سے بینکوں کے کاروبار کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ کیوں کہ بینک واجب الادا رقوم کے مقابلے میں محفوظ زر کی جگہ رکھ سکتا ہے اور اس کی وجہ سے لین دین میں بڑی سہولت ہو گئی ہے۔

کاغذی زر میں خرابیاں ہیں لیکن اس کی خرابیوں کے مقابلے میں خوبیاں زیادہ ہیں اور انھیں حکومت اپنی مالیاتی پالیسی کے ذریعے کنٹرول کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے دور جدید میں کاغذی زر ایک مستحکم عنصر کی حیثیت سے اخراجات، دولت، بچت، سرمایاکاری اور روزگارEmplyment کی قدرتی گردش پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے اس کی بدولت پیداوار، کھپت، تجارت غرض زندگی کے تمام شعبوں میں سہولتیں حاصل ہیں۔ اس کی بدولت نہ صرف خرید و فرخت میں آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں، بلکہ اس سے معاشیاتی سرگرمیوں میں تسلسل قائم ہے۔ غرض صنعت، زراعت، مواصلات، بینکاری، کھپت، پیداوار، معاشی سرگرمیوں اور روزگارEmplyment پیدا کرنے میں اس کا کردار بہت اہم ہے۔ کینز Keynes کے خیال میں زر ایک سیالی اثاثہ ہے، کیوں کہ اس مدد سے ہم اپنی ضرورت کی تمام اشیائ فوری طور پر خرید سکتے ہیں۔

اعتباری زر

موجودہ دور میں زر کے طور پر بڑے چھوٹے سکے اور نوٹ استعمال ہوتے ہیں۔ جب کہ سونے چاندی کے سکے انیسیویں صدی کے آخر میں ختم ہو گئے۔ اب سکوں اور نوٹوں کے علاوہ بڑی تعداد میں بینک ڈرافٹ کفالتیں یا چیک بھی بازار میں گردش کرتے ہیں اور بڑے بڑے لین دین اسی اعتبار پر کیے جاتے ہیں، اس لے ے یہ اعتباری زر کہلاتے ہیں۔ حقیقت میں موجودہ زر یا نوٹوں کی ابتدا انھی اعتباری زر سے ہوئی تھی۔

اعتباری زر کو عام بینک جاری کرتا ہے۔ اس کی قانونی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ یہ اعتبار پر قبول کیے جاتے ہیں۔ حقیقت میں یہ کرنسی نوٹوں سے کہیں بڑی تعداد میں گردش کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے بینکوں اور لین دین کرنے والوں کوبڑی سہولت ہوتی ہے۔

اس کی بہت سی صورتیں ہوتی ہیں۔ مثلأٔکوئی چیز خرید کر اس کی قیمت کا مستقبل میں تحریری ادائیگی کا وعدہ کرنا اور یہ تحریری وعدے ادائیگی سے پہلے کاروباری اور ذاتی لین دین میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان تحریری وعدوں میں مختلف طرح کے چیک بینک ڈرافٹ کفالتیں شامل ہیں، جن پر سود یا مقررہ فیس کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔

اعتباری زر دراصل بینک کے خلاف ایک مطالبہ ہوتا ہے۔ ایک عام کرنسی نوٹ بھی اعتباری زر ہوتا ہے۔ مگر اس کی حیثیت قانونی ہوتی ہے اور یہ حکومت کے خلاف مطالبہ ہوتا ہے۔

اعتباری زر عام قانونی زر کی طرح آج کی دنیا میں کاروبار کے لے ے استعمال کیے جا رہے ہیں، بلکہ یہ قانونی زر سے زیادہ استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کی بدولت صنعت و تجارت نے بہت ترقی کرلی ہے کیوں کہ اس سے ادائیگیوں میں بہت سہولتیں ہو گئی ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک اس کے ذریعے ادائیگیاں کی جاتی ہیں جو نہ صرف محفوظ بلکہ سہل طریقہ ہے۔

اس کے نقصانات میں اعتباری زر کا بڑی تعداد میں جاری ہونا ہے۔ اس طرح ملک میں افراط زر پیدا ہوجاتا ہے اور قیمتوں میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے۔ اعتباری زر کی بدولت غیر کاروباری افراد کاروبار کے نام سے قرضہ لے کر فضول کاموں میں اڑا دیتے ہیں۔ اس طرح بینک کے قرضوں کی آسان دستیابی کی بدولت کاروباری لوگ مختلف اقسام کے کاروبار میں اجا رہ داری حاصل کرلیتے ہیں اور قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیتے ہیں۔ گو کاغذی زر کی طرح اس کے بھی نقصانات ہیں اور کاغذی زرکی طرح اس میں نقصانات سے زیادہ خوبیاں ہیں۔ اس لے ے کاغذی زر کسی ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے میں اہم کردار کرتا ہے۔ تاہم کسی بھی کرنسی کے اعتباری زر بین الاقوامی لین دین میں استعمال ہو تے ہیں تو ان کی گردش اس ملک کی کرنسی میں استحکام پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت ور معیشت کی کرنسیوں کے اعتباری زر بین ا لاقوامی طور پر قبول کیے جاتے ہیں۔

کسی بینک کے لے ے ضروری نہیں ہے کہ وہ اعتباری زر جاری رکھنے کے لے ے صد فیصد رقم محفوظ رکھے۔ بلکہ وہ محفوظ رقم کا کچھ فیصد رکھ کر اعتباری زر جاری کر سکتا ہے۔ مثلأٔ دس فیصد، بیس فیصد۔ دراصل کوئی اعتباری زر اپنے پاس رکھے تو وہ دراصل بینک کو قرض دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے لوگوں کی عادتوں کی وجہ سے اعتباری زر میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ نقد رقوم ملک میں با آسانی سے نہیں بڑھ سکتی ہیں۔ لہذا ملک میںگردش کردہ نوٹوں میں جس نسبت سے نقد رقوم بینک میں جمع ہوں گی اعتباری زر اسی نسبت سے ملک میں گردش کرے گا۔

کسی فرد کو بینک قرضہ دیتا ہے تو واقعی اس کو بینک قرض نہیں اداہے۔ بلکہ اس کے حساب میں رقوم بینک میں جمع کردیتا ہے۔ قرض دار جو اشیائ یا خدمات خریدتا ہے تو اس کی ادائیگی بذریعہ چیک کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے چیک لینے والا یہ رقم لینے کی بجائے بینک میں اپنے حسابات میں جمع کرلے۔ اس طرح بینکوں کی امانتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور کسی کی امانت میں کمی نہیں ہوتی ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں چیک کے ذریعے لین دین عام ہے اور معمولی رقوم کے علاوہ تمام ادائیگیاں چیک کے ذریعے ہوتی ہیں۔ وہاں نقد رقوم بینکوں میں محفوظ رہتی ہیں اور اس تناسب سے اعتباری زر کی مقدارمیں اضافہ ہوتا ہے اور سرگرمی کاروبارکے لے ے رقوم باآسانی میسر آجاتی ہیں۔ اس لیے وہاں کی معیشت مستحکم ہوتی ہے اور وہاں کے اعتباری زر بین الاقوامی لین دین میں بھی قبول کیے جاتے ہیں۔

اگرچہ بینک اعتباری زر تخلیق کر سکتا ہے لیکن اس کی تخلیق کی طاقت محدود ہوتی ہے۔ اگرچہ بینک اپنی محفوظ رقم میں اضافہ کرکے اعتباری زر میں اضافہ کر سکتا ہے۔ لیکن ترقی پزیر ملکوں میں حالات اس طرح کے نہیں ہوتے ہیں۔ وہاں عمومأٔ مرکزی بینک کی پابندیاں ہوتی ہیں۔ جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ہے، وہاں تناسب نقد عام معاشی حالات سے متاثر ہوتے ہیں۔ عام طور پر سرگرمی کاروبار کے امکانات کے مطابق بینک محسوس کرتا ہے کہ کس قدر معمولی تناسب کافی رہے گا۔

کوئی بینک متوازن حالات میں کسی خاص عرصہ میں نہ تو زر نقدحاصل کر تا ہے اور نہ ہاتھ سے جانے دیتا ہے۔ اس لے ے کسی ایک ملک میں کوئی ایک بینک تنہا اعتباری زر کے پھیلاؤ میں اضافہ کرے تو اسے تضفیے کے حساب کے لے ے دوسرے بینکوں کو زر نقدادا کرنا پڑے گا۔ لیکن تمام ملکی بینک اعتباری زر کے پھیلاؤ میں اضافہ کریں تو ایسی صورت درپیش نہیں آتی ہے۔ * اعتباری زر 1950 سے دنیا بھر میں نہایت پرسرار طریقہ سے چھا گئی ہے۔ چونکہ یہ بہت وسیع ہیں۔ جہاں حکومتیں یاIMF اور کاروباری افراد کسی وقت بھی قرض لے سکتے ہیں۔ اس طرح اعتباری زر کا تعلق دولت کی ایک کشادہ ترسیل سے ہے۔ جہاں اس کے مطالبے کو حکومتیں اور بڑے تاجر استعمال کرتے ہیں۔ اعتباری زر اگرچہ دولت سے مضبوط نہیں ہے، لیکن دنیا بھر کی تھوک مارکیٹوں پر بری طرح چھا ئی ہوئی ہے۔

ماخذ

فیڈرک بینیم، معاشیات زر و بینکاری۔ ترجمہ عظمت اللہ خان فروری 1965 سرسید بک کمپنی اردو بازار کراچی

BOOK OF ECONOMIC & THEORRY ۔.۔.۔. SIONIER & HAGUE

پروفیسر نثار احمد سلیمی۔ زری نظریہ اور مالیاتی پالیسی 1976ئ مجید بک ڈپو لاہور

ضیاالدین۔ آسیان کا بحران، اتوار 23 مارچ 1997ئ جنگ۔ کراچی

پروفیسر نثاراحمدسلیمی۔ بین الاقوامی معاشیات۔ نومبر 1976ئ مجید بک ڈپو لاہور

International Ecnomics 1985 San fancisco

مزید دیکھیے

بیرونی روابط

حوالہ جات