کاسٹ آئرن
کاسٹ آئرن (cast iron) سے مراد لوہے کی وہ اقسام ہیں جن میں کاربن کی مقدار 2 فیصد سے زیادہ ہو۔ عام طور پر اس میں سلیکون بھی ایک سے تین فیصد تک موجود ہوتا ہے۔ یہ ناخالص قسم کا لوہا ہوتا ہے جسے بنانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔
خالص لوہا 1535 ڈگری سینٹی گریڈ پر پگھلتا ہے۔ اس کے برعکس کاسٹ آئرن 350 ڈگری سے کم پر پگھل جاتا ہے۔ جب لوہے میں کاربن کی مقدار 4.2 فیصد ہوتی ہے تو یہ صرف 1150 ڈگری سینٹی گریڈ پر پگھل جاتا ہے۔
جب لوہے کی کچ دھات (ore) سے لوہا نکالا جاتا ہے تو پہلے مرحلے میں پِگ آئرن (pig iron) حاصل ہوتا ہے جس میں کثافتیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ایسا لوہا کسی کام میں نہیں لایا جا سکتا۔ دوسرے مرحلے میں پِگ آئرن سے کاسٹ آئرن بنایا جاتا ہے اور پھر اس سے فولاد حاصل کیا جاتا ہے۔
کاسٹ آئرن کافی پھوٹک (brittle) ہوتا ہے یعنی اس سے بنی سلاخ کو اگر موڑنے کی کوشش کی جائے تو یہ مڑنے کی بجائے ٹوٹ جاتی ہے۔ اس وجہ سے کاسٹ آئرن کو صرف پگھلی ہوئی حالت میں سانچوں میں ڈھال کر ضرورت کی اشیاء بنائی جا سکتی ہیں۔ لوہے میں کاربن کی مقدار جتنی کم ہوتی جاتی ہے پھوٹک پن بھی اتنا ہی کم ہوتا جاتا ہے اور لچک بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جب لوہے میں کاربن 2 فیصد سے کم ہو جاتا ہے تو اسے فولاد (steel اسٹیل) کہتے ہیں۔
اسٹیل کے مقابلے میں کاسٹ آئرن کو زنگ کم لگتا ہے۔ کاسٹ آئرن کو ویلڈنگ کے ذریعے جوڑا نہیں جا سکتا۔ ہتھوڑے سے چوٹ مارنے پر یہ ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے اور گرم حالت میں بھی اسے ہتھوڑے سے مار مار کر اس کی شکل بدلی نہیں جا سکتی۔ اسٹیل کھینچاو برداشت کر لیتا ہے مگر کاسٹ آئرن نہیں کر سکتا۔ کاسٹ آئرن کافی زیادہ وزن برداشت کر لیتا ہے۔
کاسٹ آئرن سے تار یا ورق نہیں بنائے جا سکتے کیونکہ اس میں تار پذیری (ductility) اور ورق پذیری (malleability) نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
یورپ میں کاسٹ آئرن سے توپیں ڈھالنے کا کام پندرھویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔ اگرچہ کاسٹ آئرن سے بنی توپیں زیادہ وزنی ہوتی تھیں مگر یہ پہلے سے زیر استعمال کانسی کی توپوں سے بہت سستی پڑتی تھیں۔ اس طرح انگلستان کو اپنی بحریہ کو مضبوط بنانے میں بڑی مدد ملی۔