فتوحات مکیہ ابن عربی کی کتاب کا نام ہے جو آپ کی تحقیق کا نچوڑ مانا جاتا ہے یہ تصوف اسلامی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی کتاب ہے۔ اس میں ہی وحدت الوجود پر بحث کی گئی ہے۔ اس کا اثر تمام اسلامی صوفی سلسلوں میں پایا جاتا ہے۔ اسی کتاب پر سلفی اور بعض دیگر شخصیات نے اعتراضات و تنقیدیں لکھی ہیں اور کئی نامور علما نے اس کی شرح کی ہے۔ فتوحات مکیہ ابن عربی کا سب سے ضخیم کام ہے جو پانچ سو ساٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ مکہ میں قیام کے دوران اس کتاب کی تحریر کا آغاز ہوا تھا اور اس کی بنیاد وہاں حاصل ہونے والے کشف تھے۔ ہر باب ایک ایسے مقام کی نمائندگی کرتا ہے جس سے حقیقت یا اس کے کسی پہلو کا تجزیہ ممکن ہے اور یوں وہ کثرت میں وحدت کی توجیہ کرتے ہیں۔ یہ کتاب روحانی تعلیم کے ضخیم دائرۃالمعارف کی حیثیت رکھتی ہے۔[1]

سرورق عربی جدید طباعت
مصنفشیخ اکبر ابن عربی
ملکاندلس
زبانعربی
موضوعتصوف
صنفاسلامی ادب
تاریخ اشاعت2006ء
ناشردار الكتب العلميہ
قسم ذرائع ابلاغمجلد
صفحات4000
آئی ایس بی این2-7451-2275-4
سابقہفصوص الحکم
نظریہ وحدت الوجود کا بنیادی ماخذ اور اولین باقاعدہ وضاحت اسی کتاب میں کی گئی ہے۔

فتوحات کے بارے میں مصنف کی رائے

ترمیم

فتوحات مکیہ شیخ اکبر کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کے بارے میں آپ کا کہنا ہے کہ “ایسی کتاب نہ پہلے کبھی لکھی گئی ہے اور نہ آیندہ کبھی لکھی جائے گی۔” آپ نے اس تصنیف کا آغاز سن 598ھ میں مکہ مکرمہ سے کیا فرماتے ہیں: “اس کتاب میں میں نے زیادہ تر وہ باتیں بیان کی ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے عزت والے گھر کے طواف یا اس کے پاس بیٹھنے کے دوران مجھ پر کھولیں۔” اور ٹھیک 30 سال بعد 629 ھ دمشق میں آپ نے اسے مکمل کیا۔ یہ وہ کتاب ہے جو صحیح معنوں میں شیخ اکبر کے علوم کا خلاصہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں: “میں نے اس کتاب میں اس کے کثیر الحجم ہونے کے باوجود بھی راہ طریقت کی کسی ایک خاطر کو پوری طرح بیان نہیں کیا اور نہ ہی راہ طریقت کا کوئی نقطہ اس کتاب میں شامل ہونے سے رہ گیا ہے۔” لہذا فتوحات مکیہ ہی اس راہِ طریقت کا جامع اختصار ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم